وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال:كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينفل بعض من يبعث من سرايا لأنفسهم خاصة سوى قسمة عامة الجيش.متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض فوجی دستوں کو بالخصوص غنیمت کے حصہ کے علاوہ کچھ مزید دیا کرتے تھے۔ یہ عام فوجی کی تقسیم میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1113]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ومن الدليل علي أن الخمس لنوائب المسلمين، حديث:3135، ومسلم، الجهاد والسير، باب الأنفال، حديث:1750 /40.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1113
تخریج: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ومن الدليل علي أن الخمس لنوائب المسلمين، حديث:3135، ومسلم، الجهاد والسير، باب الأنفال، حديث:1750 /40.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجاہد کو یہ نفلی حصہ عنایت نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ صرف مخصوص مجاہدین کو کسی خاص مصلحت کی وجہ سے دینا مناسب خیال فرماتے‘ پھر جنھیں یہ حصہ دیتے انھیں بھی مساوی طور پر نہ دیتے بلکہ خدمت اور مصلحت کے لحاظ سے کم و بیش دیتے تھے۔ 2.اس سے معلوم ہوا کہ آج بھی خاص خدمات انجام دینے والے مجاہدین کو سربراہ مملکت یا امیر لشکر خصوصی انعامات دے سکتا ہے‘ مثلاً: مختلف قدر و قیمت کے تمغے‘ نشانات‘ نقد انعام وغیرہ۔ 3. اس سے مجاہدین اور غازیانِ اسلام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1113