ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو“۔
It was narrated from Abu Sa’eed Al-Khudri that he heard the Messenger of Allah (ﷺ) say:
“When the Imam says: ‘Sami’ Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him),’ say: ‘Allahumma, Rabbana wa lakal-hamd (O Allah! O our Lord! To You is the praise).’”
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام جہری قراءت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک پہلے «التحيات» پڑھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی زور سے قراءت نہ کرو، یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ نہ پڑھو، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری حدیثوں سے جو خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں یہ ثابت ہے کہ مقتدی کو سورۃ فاتحہ ہر ایک نماز میں پڑھنا چاہئے، ابھی اوپر گزرا کہ ابوالسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: اے فارسی! اپنے دل میں پڑھ لو، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی زور سے قراءت نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے امام کو تکلیف ہوتی ہے، کبھی وہ بھول جاتا ہے۔ ۲؎: اگر امام کسی عذر کے سبب بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، اگر وہ معذور نہیں ہیں، اس حدیث کا یہ حکم کہ امام بیٹھ کر پڑھائے تو بیٹھ کر پڑھو منسوخ ہے، مرض الوفات کی حدیث سے۔
It was narrated that Abu Musa Al-Ash’ari said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When the Imam recites, then listen attentively, and if he is sitting (in the prayer) then the first remembrance that anyone of you recites should be the Tashahhud.’”
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اور کئی دوسری حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام «سمع الله لمن حمده» کہے اور اس کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے اور مقتدی امام کے «ربنا ولك الحمد» کہنے کے بعد یہ کلمات کہے، علماء کے درمیان امام اور مقتدی دونوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا دونوں ہی یہ دونوں کلمات کہیں یا صرف امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد» پر اکتفاء کرے، یا امام «سمع الله لمن حمده» پڑھے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد»، شافعیہ اور بعض محدثین کا مذہب ہے کہ امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد» پڑھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام صرف «سمع الله لمن حمده» کہے، اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد»، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، لیکن اس سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ امام «ربنا ولك الحمد» نہ کہے، یا مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہے، دوسری متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دونوں کلمے کہتے تھے، اسی لئے امام طحاوی حنفی نے بھی اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں لیا، اور باتباع حدیث یہ حکم دیا ہے کہ امام دونوں کلمے کہے، اب رہ جاتا ہے کہ کیا مقتدی دونوں کلمے کہے یا صرف دوسرے کلمے پر اکتفاء کرے، جب کہ روایت ہے کہ «إن النبي ﷺ كان يقول: إنما جعل الإمام ليؤتم به... وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا ولك الحمد يسمع الله لكم فإن الله تبارك وتعالى قال على لسان نبيه ﷺ: سمع الله لمن حمده»(صحیح مسلم، ابوعوانہ، مسند احمد، سنن ابی داود)”نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ امام تو صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو اللہ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی جس نے حمد کی اللہ نے اس کی حمد سن لی“، محدث عصر امام البانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» کہنے میں امام کے ساتھ شرکت نہ کرے، جیسے اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مقتدی کے قول «ربنا ولك الحمد» میں اس کا شریک نہیں ہے، اس لیے کہ اس رکن میں امام اور مقتدی کیا کہیں اس کے لیے یہ حدیث نہیں وارد ہوئی ہے بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے یہ حدیث آئی ہے کہ مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، ایسے ہی حدیث: «صلوا كما رأيتموني أصلي» کے عموم کا تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح «سمع الله لمن حمده» وغیرہ کہے، (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ، والاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی ص ۱۲۵-۱۲۶)، خلاصہ یہ کہ امام اور مقتدی دونوں دونوں کلمات کہیں اور مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، «واللہ اعلم» ۔
It was narrated from Abu Hurairah that when the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Sami’ Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him),” he said: “Rabbana wa lakal-hamd (O our Lord, to You is the praise).”
It was narrated from Anas bin Malik that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“When the Imam says: ‘Sami’ Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him),’ say: ‘Rabbana wa lakal-hamd (O our Lord, to You is the praise).’”
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن مسعر , عن ابي مرزوق , عن ابي وائل , عن ابي امامة الباهلي , قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متكئ على عصا , فلما رايناه قمنا , فقال:" لا تفعلوا كما يفعل اهل فارس بعظمائها" , قلنا يا رسول الله: لو دعوت الله لنا , قال:" اللهم اغفر لنا وارحمنا , وارض عنا , وتقبل منا , وادخلنا الجنة , ونجنا من النار , واصلح لنا شاننا كله" , قال فكانما احببنا ان يزيدنا , فقال:" اوليس قد جمعت لكم الامر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ مِسْعَرٍ , عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَصًا , فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قُمْنَا , فَقَالَ:" لَا تَفْعَلُوا كَمَا يَفْعَلُ أَهْلُ فَارِسَ بِعُظَمَائِهَا" , قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: لَوْ دَعَوْتَ اللَّهَ لَنَا , قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا , وَارْضَ عَنَّا , وَتَقَبَّلْ مِنَّا , وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ , وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ , وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ" , قَالَ فَكَأَنَّمَا أَحْبَبْنَا أَنْ يَزِيدَنَا , فَقَالَ:" أَوَلَيْسَ قَدْ جَمَعْتُ لَكُمُ الْأَمْرَ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصا (چھڑی) پر ٹیک لگائے ہمارے پاس باہر تشریف لائے، جب ہم نے آپ کو دیکھا تو ہم کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسے کھڑے نہ ہوا کرو جیسے فارس کے لوگ اپنے بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: «اللهم اغفر لنا وارحمنا وارض عنا وتقبل منا وأدخلنا الجنة ونجنا من النار وأصلح لنا شأننا كله»”اے اللہ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہم سے راضی ہو جا، ہماری عبادت قبول فرما، ہمیں جنت میں داخل فرما، اور جہنم سے بچا، اور ہمارے سارے کام درست فرما دے“، ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تو گویا ہماری خواہش ہوئی کہ آپ اور کچھ دعا فرمائیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے تمہارے لیے جامع دعا نہیں کر دی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 165 (5230)، (تحفة الأشراف: 4934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/253، 256) (ضعیف)» (ابو مرزوق لین الحدیث ہیں، اور سند میں کافی اضطراب ہے، لیکن فعل فارس سے ممانعت صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 346)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (5230) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514