Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
18. بَابُ : مَا يَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
باب: رکوع سے سر اٹھاتے وقت کیا کہے؟
حدیث نمبر: 875
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ:" إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع الله لمن حمده» کہہ لیتے تو  «ربنا ولك الحمد»  کہتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث أبي سلمة أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح 84 (1024)، التطبیق 94 (1157)، وحدیث سعید بن المسیب تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 13110)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الأذان 124 (795)، 125 (796)، صحیح مسلم/ الصلاة 10 (392)، سنن ابی داود/الصلاة 144 (836)، سنن الترمذی/الصلاة 83 (267)، مسند احمد (2/236، 270، 300، 319، 452، 497، 502، 527، 533) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اور کئی دوسری حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام «سمع الله لمن حمده» کہے اور اس کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے اور مقتدی امام کے «ربنا ولك الحمد» کہنے کے بعد یہ کلمات کہے، علماء کے درمیان امام اور مقتدی دونوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا دونوں ہی یہ دونوں کلمات کہیں یا صرف امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد» پر اکتفاء کرے، یا امام «سمع الله لمن حمده» پڑھے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد»، شافعیہ اور بعض محدثین کا مذہب ہے کہ امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد» پڑھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام صرف «سمع الله لمن حمده» کہے، اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد»، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، لیکن اس سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ امام «ربنا ولك الحمد» نہ کہے، یا مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہے، دوسری متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کلمے کہتے تھے، اسی لئے امام طحاوی حنفی نے بھی اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں لیا، اور باتباع حدیث یہ حکم دیا ہے کہ امام دونوں کلمے کہے، اب رہ جاتا ہے کہ کیا مقتدی دونوں کلمے کہے یا صرف دوسرے کلمے پر اکتفاء کرے، جب کہ روایت ہے کہ «إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم كان يقول: إنما جعل الإمام ليؤتم به... وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا ولك الحمد يسمع الله لكم فإن الله تبارك وتعالى قال على لسان نبيه صلی اللہ علیہ وسلم : سمع الله لمن حمده» (صحیح مسلم، ابوعوانہ، مسند احمد، سنن ابی داود) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ امام تو صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو اللہ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی جس نے حمد کی اللہ نے اس کی حمد سن لی، محدث عصر امام البانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» کہنے میں امام کے ساتھ شرکت نہ کرے، جیسے اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مقتدی کے قول «ربنا ولك الحمد» میں اس کا شریک نہیں ہے، اس لیے کہ اس رکن میں امام اور مقتدی کیا کہیں اس کے لیے یہ حدیث نہیں وارد ہوئی ہے بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے یہ حدیث آئی ہے کہ مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، ایسے ہی حدیث: «صلوا كما رأيتموني أصلي» کے عموم کا تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح «سمع الله لمن حمده» وغیرہ کہے، (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، والاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی ص ۱۲۵-۱۲۶)، خلاصہ یہ کہ امام اور مقتدی دونوں دونوں کلمات کہیں اور مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 875 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث875  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع سے اٹھتے تو (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ)
کہتے۔
پھر جب سیدھے کھڑے ہوجاتے تو (رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ)
 یا (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ)
کہتے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب التکبیر اذا قام من السجود، حدیث: 788)
 
(2)
تمہید کا جملہ مختلف انداز سے مروی ہے۔
جس طریقے سے بھی پڑھا جائے درست ہے۔
یعنی (رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ)
یا (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ) (اللهم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ) (اللهم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ)
 دیکھئے۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب ما یقول اذا رفع راسه من الرکوع، حدیث: 477، 476)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 875   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 795  
´امام اور مقتدی رکوع سے سر اٹھانے پر کیا کہیں؟`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ قَالَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تو اس کے بعد «اللهم ربنا ولك الحمد» بھی کہتے . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 795]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے باب قائم فرمایا امام اور مقتدی کیا دعا پڑھیں جب رکوع سے سر اٹھائیں؟ مگر جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں مقتدی کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف امام کا ذکر ہے۔ حدیث اور باب میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں واضح حکم ہے کہ امام اس لیے مقرر کیا جائے کہ اس کی اقتدا کی جائے لہٰذا جب امام رکوع سے سر اٹھائے گا تو لازماً مقتدی کو بھی امام کی اقتدا میں سر اٹھانا ہو گا۔
باب مذکورہ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف امام کے متعلق حدیث کا ذکر فرمایا ہے، مگر آپ نے ترجمۃ الباب میں «من خلفه» کا اضافہ کر کے مقتدیوں کی طرف اشارہ فرما کر اپنا رجحان ظاہر فرما دیا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے تحت حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر فرما رہے ہیں جس میں واضح الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده» اور پھر «اللهم ربنا لك الحمد» کہتے۔ اگرچہ ماموم کا ذکر موجود نہیں مگر حدیث «انما جعل الامام ليؤتم به» اور حدیث «صلوا كما رايتموني اصلي» کے تحت ماموم بھی اسی طرح کہے گا۔ بس ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہیں سے ہے۔

◈ ابن رشید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«بأنه اشار الي التذكير بالمقدمات لتكون الاحاديث عند الاستنباط نصب عيني المستنبط فقد تقدم حديث انما جعل الامام ليؤتم به و حديث صلوا كما رآيتموني اصلي» [فتح الباري، ج2، ص245]

◈ امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجمعهما الامام و الماموم احب الي» [معرفة السنن و الاثار، ج2، ص12]
میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس حکم میں امام اور مقتدی دونوں جمع ہیں۔‏‏‏‏

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس دعا «سمع الله لمن حمده» میں امام کا اختصاص نہیں ہے (بلکہ مقتدی بھی شامل ہیں)۔ [التوضيح ج 6۔ ص 175]

فائدہ:
امام جب رکوع سے سر اٹھائے تو پڑھے گا «سمع الله لمن حمده» مقتدی بھی انہیں الفاظوں کو دہرائیں گے۔

◈ امام دار قطنی رحمہ الله نے سنن دارقطنی میں فرماتے ہیں:
«عن ابي هريرة رضى الله عنه ان النبى صلى الله عليه وسلم قال، اذا قال الامام سمع الله لمن حمده فليقل من ورائه سمع الله لمن حمده .» [سنن الدار قطني ج1 رقم الحديث 1270، اور ده ابن الجوزي فى التحقيق ج1 ص386 واسناده صحيح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام کہے «سمع الله لمن حمده» تو جو اس کے پیچھے ہو (مقتدی) وہ بھی کہیں «سمع الله لمن حمده .»

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد ورد فى ذالك حديث عن أبى هريرة أيضًا أخرجه الدارقطني بلفظ: كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سمع الله لمن حمده قال من وراءه سمع الله لمن حمده .» [فتح الباري ج2 ص359]
یقیناً اس مسئلہ پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی حدیث وارد ہے جس کو امام دارقطنی نے نکالا کہ! ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتے تو آپ کہتے «سمع الله حمده» آپ کے پیچھے مقتدی بھی یہی الفاظ کہتے

◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک اور اثر کا بھی ذکر فرمایا ہے اپنی سنن میں بطریق «ابن عون قال قال محمد! إذا قال الإمام سمع الله لمن حمده قال من خلفه سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد .» [سنن الدارقطني ج1 رقم 1291]
اس اثر میں ان دو روایتوں میں تطبیق پائی جاتی ہے جس میں حدیث موجود ہے کہ جب امام کہے «سمع الله لمن حمده» تو تم کہو «ربنا ولك الحمد» اگر غور کیا جائے تو ان دونوں روایات میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کہ جس حدیث میں مقتدیوں کے لئے «ربنا ولك الحمد» کہنے کا ذکر ہے یہ حدیث «سمع الله لمن حمده» کہنے سے روکتی نہیں کیوں کہ قاعدہ مشہور ہے عدم ذکر سے عدم شئ لازم نہیں۔
لہٰذا مقتدی «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہہ سکتا ہے۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 197   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1061  
´جب امام رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو «اللہم ربنا ولك الحمد» کہتے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1061]
1061۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا کہ امام رکوع سے اٹھے تو «سمعَ اللَّهُ لمن حمدَهُ» بھی کہے اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» بھی۔ اسی طرح اکیلا نماز پڑھنے والا بھی دونوں جملے کہے۔ امام مالک رحمہ اللہ امام کے لیے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنے کے ائل نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ «سمعَ اللَّهُ لمن حمدَهُ» کا جواب ہے، لہٰذا یہ جملہ صرف مقتدی کہیں گے اور امام صرف «سمعَ اللَّهُ لمن حمدَهُ» کہے گا مگر یہ صریح احادیث کے خلاف ہے۔ اس قسم کی مناسبات وہاں تلاش کی جاتی ہیں جہاں نص (صریح قرآن و حدیث) مذکور نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1061   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 795  
795. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے تھے تو اس کے بعد اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، نیز جب دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:795]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے امام کا کہنا تو ثابت ہوا لیکن مقتدی کا یہ کہنا ا س طرح ثابت ہوگا کہ مقتدی پر امام کی پیروی ضروری ہے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں مذکور ہے۔
اسی حدیث کے دوسرے طرق میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو پیچھے والے بھی امام کے ساتھ ربنا و لک الحمد الخ بھی کہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 795   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:795  
795. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے تھے تو اس کے بعد اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، نیز جب دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:795]
حدیث حاشیہ:
(1)
محدثین کی اصطلاح میں سمع الله لمن حمده کو تسميع اور ربنا ولك الحمد کو تحميد کہا جاتا ہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تسمیع رکوع سے اٹھنے اور تحمید رکوع کے بعد قیام کا وظیفہ ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو دونوں وظیفے ادا کرنے چاہئیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی جس نماز کے متعلق یہ تفصیل بیان کر رہے ہیں اسے امامت ہی پر محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ اکثر و بیشتر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اسے بیان کیا ہے وہ حالت امامت ہی میں ہے، لہذا امام تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا۔
(فتح الباري: 353/2) (2)
امام، مقتدی اور منفرد سب رکوع سے اٹھتے وقت تسمیع، اور سیدھے کھڑے ہونے کے بعد تحمید کہیں گے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس کے علاوہ امام بھی تو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، البتہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 732)
اس حدیث سے یہ استنباط کرنا کہ مقتدی کو سمع الله لمن حمده نہیں کہنا چاہیے اور امام کو ربنا ولك الحمد نہیں کہنا چاہیے، کسی صورت میں درست نہیں کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دونوں کلمات کہتے تھے اور اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، تاہم واضح رہے کہ اس حدیث انس ؓ کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ امام اور مقتدی اس موقع پر کیا کہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ مقتدی کی تحمید امام کی تسمیع کے بعد ہونی چاہیے جیسا کہ علامہ البانی نے اس کی وضاحت کی ہے۔
(صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم ص: 135)
اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ پیش کردہ حدیث سے امام کا وظیفہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا لیکن اس عنوان کا دوسرا جز کہ مقتدی کیا کہے وہ ثابت نہیں ہوتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مقتدی امام کی پیروی کرنے کا پابند ہے، اس لیے وہ بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے تسمیع اور تحمید دونوں کو بجا لائے گا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
اس حدیث کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی تسمیع و تحمید کو جمع کرے گا۔
اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسے امام دارقطنی نے بیان کیا ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے اور آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سمع الله لمن حمده کہتے، لیکن امام دارقطنی نے خود وضاحت کی ہے کہ یہ الفاظ صحیح نہیں بلکہ محفوظ روایت یہ ہے کہ آپ کے پیچھے مقتدی حضرات ربنا ولك الحمد کہتے۔
(فتح الباري: 365/2)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 795