406- مالك عن قطن بن وهب عن عويمر بن الاجدع ان يحنس مولى الزبير اخبره انه كان جالسا عند عبد الله بن عمر فى الفتنة، فاتته مولاة له تسلم عليه، فقالت: إني اردت الخروج يا ابا عبد الرحمن، اشتد علينا الزمان، فقال لها عبد الله بن عمر: اقعدي لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يصبر على لاوائها وشدتها احد إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة.“406- مالك عن قطن بن وهب عن عويمر بن الأجدع أن يحنس مولى الزبير أخبره أنه كان جالسا عند عبد الله بن عمر فى الفتنة، فأتته مولاة له تسلم عليه، فقالت: إني أردت الخروج يا أبا عبد الرحمن، اشتد علينا الزمان، فقال لها عبد الله بن عمر: اقعدي لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يصبر على لأوائها وشدتها أحد إلا كنت له شهيدا أو شفيعا يوم القيامة.“
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے غلام یحنس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس فتنے (مسلمانوں کی باہمی جنگ) کے دور میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی ایک لونڈی سلام کرنے کے لئے آئی تو کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں (مدینے سے) نکل جانا چاہتی ہوں، ہم پر زمانہ بہت سخت ہے۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: اری بیوقوف بیٹھ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مدینے کی مصیبتوں اور سختیوں پر جو بھی صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس پر گواہ یا اس کا سفارشی ہوں گا۔
हज़रत ज़ुबैर रज़ि अल्लाहु अन्ह के ग़ुलाम युहनस रहम अल्लाह से रिवायत है कि वह हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा के पास फ़ितने (मुसलमानों की आपसी जंग) के समय में बैठे हुए थे कि उन की एक लौंडी सलाम करने के लिए आई तो कहा ! ऐ अबु अब्दुर्रहमान ! मैं (मदीने से) निकल जाना चाहती हूँ, हम पर समय बहुत सख़्त है। तो हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा ने उस से कहा ! अरे मूर्ख बैठ, मैं ने रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को कहते हुए सुना है कि मदीने की मुसीबतों और सख़्तियों पर जो भी सब्र करे गा तो में क़यामत के दिन उस पर गवाह या उस की सिफ़ारिश करूंगा।
تخریج الحدیث: «406- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 885/2، 886 ح 1703، ك 45 ب 2 ح 3) التمهيد 22/21، 23، الاستذكار: 1633، و أخرجه مسلم (1377/482) من حديث مالك به، من كتب الرجال وجاء فى الأصل: ”قطن بن واحد“ وهو خطأ۔، من رواية يحيي بن يحيي، وجاء فى الأصل: ”عن“ وهو خطأ.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 648
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1377/482، من حديث مالك به . من كتب الرجال وجاء فى الأصل: ”قطن بن واحد“ وهو خطأ . من رواية يحي بن يحي، وجاء فى الأصل: ”عن“ وهو خطأ]
تفقه: ➊ مدینہ طیبہ میں رہائش اور یہاں رہتے ہوئے مشکلات پر صبر کرنا انتہائی افضل کام ہے۔ ➋ الله تعالی کے اذن کے ساتھ سفارش برحق ہے۔ ➌ مک مکرمہ کے بعد مدینہ طیبہ تمام شہروں اور تمام علاقوں سے افضل ہے۔ ➍ نیز دیکھئے [الموطأ ح 85، 479، 511، البخاري 7211، 1871، 1875، ومسلم 1382، 1383، 1388]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 406
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3918
´مدینہ کی فضیلت کا بیان` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سر زمین ہے، (آپ نے کہا) «اصبري لكاع» ! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے اس کی (مدینہ کی) سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3918]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ بھی مدینہ کی ایک فضیلت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3918
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3344
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو بندہ بھی مدینہ کی تنگی و ترشی پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3344]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں (او) کا لفظ اگرتنويع وتقسيم كے لیے ہو تو اس کا یہ معنی ہو گا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مدینہ میں سےگناہگاروں کی سفارش فرمائیں گے اورنیکو کاروں کےحق میں گواہی دیں گے یا اپنے دور کے لوگوں کے حق میں گواہی دیں گے، اور بعد کے لوگوں کے بارے میں سفارش کریں گے، اگر (او) واؤ کےمعنی میں ہو تو سفارش اعمال صالحہ کی اور اس بات کی کہ یہ بندہ تنگیوں اور تکلیفوں پر صبر کیے مدینہ میں پڑا رہا، اور یہ اپنے دور کے لوگوں کے حق میں ہو گی۔