270- وعن نعيم بن عبد الله عن ابى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”على انقاب المدينة ملائكة، لا يدخلها الطاعون ولا الدجال.“270- وعن نعيم بن عبد الله عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”على أنقاب المدينة ملائكة، لا يدخلها الطاعون ولا الدجال.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینے کے راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے۔“
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मदीने के रास्तों पर फ़रिश्ते हैं, इस में महामारी का रोग और दज्जाल नहीं आ सकते।”
تخریج الحدیث: «270- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 892/2 ح 1715/2، ك 45 ب 4 ح 16) التمهيد 179/16، الاستذكار: 1646، و أخرجه البخاري (1880) مسلم (1379) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 645
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1880، ومسلم 1379، من حديث مالك به] تفقه: ➊ حرم مدینہ اور حرم مکہ میں دجالِ اکبر داخل نہیں ہو سکتا۔ ➋ مدینہ میں طاعون کی ایسی بیماری نہیں آسکتی جس سے سارے لوگ مرجائیں۔ ➌ دنیا کے تمام شہروں کے مقابلے میں مکہ اور مدینہ افضل ہیں۔ ➍ مزید فوائد کے لیے دیکھئے ح353 ➎ طاعون کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے۔ دیکھئے ح433
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 270
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1880
1880. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کے دروازوں پرفرشتے پہرہ دیں گے۔ وہاں نہ تو مرض طاعون داخل ہوگا اور نہ ہی دجال آئے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1880]
حدیث حاشیہ: یعنی عام طاعون جس سے ہزاروں آدمی مرجاتے ہیں اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی دعاؤں کی برکت سے مدینہ منورہ کو ان عافتوں سے محفوظ رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1880
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5731
5731. سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسیح دجال اور طاعون دونوں مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5731]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں مکہ کا بھی ذکر ہے۔ اب یہ نقل ”کہ سنہ 747ھ میں مدینہ منورہ میں طاعون آیا تھا صحیح نہیں ہے۔ “ بعضوں نے کہا کہ کتاب الفتن میں حضرت امام بخاری نے طاعون کے متعلق جو روایت نقل کی ہے اس میں لفظ إن شاءاللہ نقل کیا ہے جس سے مدینہ ومکہ میں مشیت ایزدی پر ان وباؤں کو متعلق کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5731
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1880
1880. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کے دروازوں پرفرشتے پہرہ دیں گے۔ وہاں نہ تو مرض طاعون داخل ہوگا اور نہ ہی دجال آئے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1880]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مدینہ طیبہ کے اردگرد کوئی فصیل نہیں تھی اور نہ اس میں دروازے نصب تھے۔ اب مدینہ اور اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ حکومت سعودیہ نے اس شہر کو جو رونق اور ترقی دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو ہمیشہ قائم رکھے تاکہ دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سرانجام دے سکے۔ (2) مدینہ طیبہ میں دجال کا خوف بھی داخل نہیں ہو گا تو وہ خود بطریق اولیٰ اس میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے وہاں فرشتوں کو تعینات کیا ہو گا جو اسے مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ وہاں عام وبائی امراض، جیسے طاعون وغیرہ بھی نہیں آئیں گی۔ (3) مسیح دجال دو الفاظ سے مرکب ہے: مسیح اس لیے کہ اس کی ایک آنکھ مسخ ہو گی یا ساری زمین میں چکر لگائے گا، اور دجال اس بنا پر کہ وہ بہت بڑا مکار اور فریبی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1880
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5731
5731. سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسیح دجال اور طاعون دونوں مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5731]
حدیث حاشیہ: (1) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس بخار اور طاعون لے کر آئے۔ میں نے مدینہ طیبہ کے لیے بخار کا انتخاب کیا اور طاعون کو شام کے لیے چھوڑ دیا، جب طاعون میری امت کے لیے شہادت اور رحمت ہے اور کافروں کے لیے عذاب۔ “(مسند أحمد: 81/5)(2) اس میں یہ حکمت بیان کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بہت تھوڑے اور وہ بھی بے سروسامانی کی حالت میں تھے اور مدینہ طیبہ بھی وبائی شہر تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار کا انتخاب کیا کیونکہ اس سے اموات بہت کم واقع ہوتی ہیں جبکہ طاعون میں تو مرنے کی وجہ سے شہر اجڑ جاتے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے جہاد کی ضرورت پڑی اور بخار ایسے حالات میں مسلمانوں کی کمزوری کا باعث تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار وغیرہ کو جُحفہ منتقل کر دینے کی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے جحفہ منتقل کر دیا۔ اس وقت سے مدینہ طیبہ خوشگوار خطہ بن گیا۔ (فتح الباري: 10/235)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5731