(مرفوع) حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ويل للاعقاب من النار ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو , وعائشة , وجابر بن عبد الله بن الحارث هو ابن جزء الزبيدي , ومعيقيب , وخالد بن الوليد , وشرحبيل ابن حسنة , وعمرو بن العاص , ويزيد بن ابي سفيان. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " ويل للاعقاب وبطون الاقدام من النار ". قال: وفقه هذا الحديث انه لا يجوز المسح على القدمين، إذا لم يكن عليهما خفان او جوربان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَعَائِشَةَ , وَجَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيُّ , وَمُعَيْقِيبٍ , وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ , وَشُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ , وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. قال أبو عيسى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ ". قَالَ: وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِمَا خُفَّانِ أَوْ جَوْرَبَانِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی برتنے والوں کے لیے خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عائشہ، جابر، عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی معیقیب، خالد بن ولید، شرحبیل بن حسنہ، عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ”ان ایڑیوں اور قدم کے تلوؤں کے لیے جو وضو میں سوکھی رہ جائیں خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے“ اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ پیروں کا مسح جائز نہیں اگر ان پر موزے یا جراب نہ ہوں۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر پیروں میں موزے یا جراب نہ ہو تو ان کا دھونا واجب ہے، مسح کافی نہیں جیسا کہ شیعوں کا مذہب ہے، کیونکہ اگر مسح سے فرض ادا ہو جاتا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم «ويل للأعقاب وبطون الأقدام من النار» نہ فرماتے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 41
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر پیروں میں موزے یا جراب نہ ہو تو ان کا دھونا واجب ہے، مسح کافی نہیں جیسا کہ شیعوں کا مذہب ہے، کیونکہ اگرمسح سے فرض ادا ہو جاتا تو نبی اکرم ﷺ ((وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنْ النَّارِ)) نہ فرماتے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 41
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 165
´ایڑیوں کے دھونے کے بیان میں` «. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ " . . . .» ”. . . محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا` وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الأَعْقَابِ:: 165]
تشریح: منشا یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الہیٰ میں مبتلا کیا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 165
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 165
165. محمد بن زیاد کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے اور لوگ برتن سے وضو کر رہے ہوتے تو فرماتے: لوگو! وضو پورا کرو کیونکہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا:”خشک ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:165]
حدیث حاشیہ: منشا یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الٰہی میں مبتلا کیا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 165
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 165
´تمام اعضائے وضو کو مکمل طور پر دھونا` «. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ . . .» ”. . . محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا` وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الأَعْقَابِ: 165]
تخريج الحديث: [140۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 29 باب غسل الاعقاب 165، مسلم 242، ترمذي 41] لغوی توضیح: «وَیْل» ہلاکت، عذاب، «اَعْقَاب» جمع ہے «عقب» کی، معنی ہے ایڑی، پاؤں کا پچھلا حصہ۔ فھم الحدیث: ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کے پاؤں میں ناخن برابر جگہ خشک تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واپس جاؤ اور اچھے طریقے سے وضوء کرو۔ [صحيح: صحيح أبوداود، أبوداود 173، ابن ماجه 665، احمد 146/3] معلوم ہوا کہ تمام اعضائے وضو کو مکمل طور پر دھونا واجب ہے اور اگر کسی ایک عضو کا کچھ حصہ بھی خشک رہ گیا تو وضوء مکمل نہیں ہو گا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 140
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 574
حضرت ابو ہریرہؓ نے کچھ لوگوں کو لوٹے سے وضو کرتے دیکھا، تو کہا: ”وضو مکمل کرو! کیونکہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کے باعث تباہی و ہلاکت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:574]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) مَطْهَرَةٌ: اگر میم پر زیر ہو تو معنی ہو گا، وضو کرنے کا آلہ (جس برتن سے بھی وضو کیا جائے) ، اور اگر میم پر زبر پڑھیں تو معنی ہو گا، دھونے کی جگہ، یہاں برتن مراد لینا ہی زیادہ مناسب ہے۔ (2) عَرَاقِيب: عرقوب کی جمع ہے، ایڑی کے اوپر کا پٹھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 574
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 575
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ سے عذاب ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:575]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: تمام احادیث بالال کا مقصود یہ ہے کہ پاؤں کا دھونا لازم ہے، اس کے دھوئے بغیر چارہ نہیں ہے، موزوں یا جرابوں کے بغیر پاؤں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے اور دھونے کے ساتھ مسح کی ضرورت نہیں، ان لوگوں کی رائے درست نہیں ہے جو پاؤں کےلیے مسح کو ضروری قرار دیتے ہیں یا غسل اور مسح میں اختیار دیتے ہیں یا دونوں کو ضروری قرار دیتے ہیں، نیز پاؤں مکمل طور پر دھویا جائے گا، ایڑیوں کے خشک رہنے کا احتمال رہنے کا احتمال ہے اس لیے ان کو دھونے کی خصوصی طو رپر تاکید کی گئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 575
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:165
165. محمد بن زیاد کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے اور لوگ برتن سے وضو کر رہے ہوتے تو فرماتے: لوگو! وضو پورا کرو کیونکہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا:”خشک ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:165]
حدیث حاشیہ: حدیث میں ایڑیوں کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس وقت ان سے متعلقہ صورت حال سامنے آئی تھی بصورت دیگر اس سے مراد ہر وہ عضو وضو ہے جسے اچھی طرح دھونے میں عام طور پر بے پروائی یا سستی سے کام لیا جاتا ہے مثلاً ایڑیاں اور پاؤں کا نچلا حصہ وغیرہ چنانچہ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خشک ایڑیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ “(مسند أحمد: 191/4) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن سیرین کا عمل اسی مقصد کے لیے بیان فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات انگوٹھی تنگ ہوتی ہے اور سہولت کے ساتھ پانی نہیں پہنچ پاتا، اس لیے آپ اسے حرکت دیتے۔ (فتح الباري: 350/1) اسی طرح عام طور پر عورتیں اپنے چہرے کے میک اپ کے لیے ایسی اشیاء استعمال کرتی ہیں کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچانے کے لیے ان کی جمی ہوئی تہ رکاوٹ بن جاتی ہے مثلاً: ہونٹوں کے لیے لپ سٹک، چہرے کے لیے تہ دار پاؤڈر اور ناخن پالش وغیرہ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ ایسے سامان زیبائش کے استعمال سے اجتناب کریں جو اعضائے وضو کی جلد تک پانی پہنچانے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو۔ ہاں مخصوص ایام میں اپنے خاوند کے لیے اس طرح کا سامان زینت استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 165