(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة، وكان يمر بنا والناس يتوضئون من المطهرة، قال: اسبغوا الوضوء، فإن ابا القاسم صلى الله عليه وسلم، قال:" ويل للاعقاب من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔
Hum se Adam bin Abi Iyaas ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Sho’bah ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Muhammed bin Ziyaad ne bayan kiya, woh kehte hain ke main ne Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se suna woh hamaare paas se guzre aur log laute se Wuzu kar rahe the. Aap ne kaha achchi tarah Wuzu karo kiunki Abul Qasim Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya (khushk) aydiyon ke liye aag ka ’azaab hai.
Narrated Muhammad Ibn Ziyad: I heard Abu Huraira saying as he passed by us while the people were performing ablution from a utensil containing water, "Perform ablution perfectly and thoroughly for Abul-Qasim (the Prophet) said, 'Save your heels from the Hell-fire.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 166
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 165
تشریح: منشا یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الہیٰ میں مبتلا کیا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 165
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 165
حدیث حاشیہ: منشا یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الٰہی میں مبتلا کیا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 165
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 165
تخريج الحديث: [140۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 29 باب غسل الاعقاب 165، مسلم 242، ترمذي 41] لغوی توضیح: «وَیْل» ہلاکت، عذاب، «اَعْقَاب» جمع ہے «عقب» کی، معنی ہے ایڑی، پاؤں کا پچھلا حصہ۔ فھم الحدیث: ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کے پاؤں میں ناخن برابر جگہ خشک تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واپس جاؤ اور اچھے طریقے سے وضوء کرو۔ [صحيح: صحيح أبوداود، أبوداود 173، ابن ماجه 665، احمد 146/3] معلوم ہوا کہ تمام اعضائے وضو کو مکمل طور پر دھونا واجب ہے اور اگر کسی ایک عضو کا کچھ حصہ بھی خشک رہ گیا تو وضوء مکمل نہیں ہو گا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 140
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:165
حدیث حاشیہ: حدیث میں ایڑیوں کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس وقت ان سے متعلقہ صورت حال سامنے آئی تھی بصورت دیگر اس سے مراد ہر وہ عضو وضو ہے جسے اچھی طرح دھونے میں عام طور پر بے پروائی یا سستی سے کام لیا جاتا ہے مثلاً ایڑیاں اور پاؤں کا نچلا حصہ وغیرہ چنانچہ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خشک ایڑیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ “(مسند أحمد: 191/4) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن سیرین کا عمل اسی مقصد کے لیے بیان فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات انگوٹھی تنگ ہوتی ہے اور سہولت کے ساتھ پانی نہیں پہنچ پاتا، اس لیے آپ اسے حرکت دیتے۔ (فتح الباري: 350/1) اسی طرح عام طور پر عورتیں اپنے چہرے کے میک اپ کے لیے ایسی اشیاء استعمال کرتی ہیں کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچانے کے لیے ان کی جمی ہوئی تہ رکاوٹ بن جاتی ہے مثلاً: ہونٹوں کے لیے لپ سٹک، چہرے کے لیے تہ دار پاؤڈر اور ناخن پالش وغیرہ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ ایسے سامان زیبائش کے استعمال سے اجتناب کریں جو اعضائے وضو کی جلد تک پانی پہنچانے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو۔ ہاں مخصوص ایام میں اپنے خاوند کے لیے اس طرح کا سامان زینت استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 165
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 41
´وضو میں ایڑیاں دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وارد وعید کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی برتنے والوں کے لیے خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 41]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر پیروں میں موزے یا جراب نہ ہو تو ان کا دھونا واجب ہے، مسح کافی نہیں جیسا کہ شیعوں کا مذہب ہے، کیونکہ اگرمسح سے فرض ادا ہو جاتا تو نبی اکرم ﷺ ((وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنْ النَّارِ)) نہ فرماتے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 41
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 574
حضرت ابو ہریرہؓ نے کچھ لوگوں کو لوٹے سے وضو کرتے دیکھا، تو کہا: ”وضو مکمل کرو! کیونکہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کے باعث تباہی و ہلاکت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:574]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) مَطْهَرَةٌ: اگر میم پر زیر ہو تو معنی ہو گا، وضو کرنے کا آلہ (جس برتن سے بھی وضو کیا جائے) ، اور اگر میم پر زبر پڑھیں تو معنی ہو گا، دھونے کی جگہ، یہاں برتن مراد لینا ہی زیادہ مناسب ہے۔ (2) عَرَاقِيب: عرقوب کی جمع ہے، ایڑی کے اوپر کا پٹھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 574
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 575
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ سے عذاب ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:575]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: تمام احادیث بالال کا مقصود یہ ہے کہ پاؤں کا دھونا لازم ہے، اس کے دھوئے بغیر چارہ نہیں ہے، موزوں یا جرابوں کے بغیر پاؤں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے اور دھونے کے ساتھ مسح کی ضرورت نہیں، ان لوگوں کی رائے درست نہیں ہے جو پاؤں کےلیے مسح کو ضروری قرار دیتے ہیں یا غسل اور مسح میں اختیار دیتے ہیں یا دونوں کو ضروری قرار دیتے ہیں، نیز پاؤں مکمل طور پر دھویا جائے گا، ایڑیوں کے خشک رہنے کا احتمال رہنے کا احتمال ہے اس لیے ان کو دھونے کی خصوصی طو رپر تاکید کی گئی ہے۔