حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 165
´تمام اعضائے وضو کو مکمل طور پر دھونا`
«. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ . . .»
”. . . محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا` وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الأَعْقَابِ: 165]
تخريج الحديث:
[140۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 29 باب غسل الاعقاب 165، مسلم 242، ترمذي 41]
لغوی توضیح:
«وَیْل» ہلاکت، عذاب، «اَعْقَاب» جمع ہے «عقب» کی، معنی ہے ایڑی، پاؤں کا پچھلا حصہ۔
فھم الحدیث:
ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کے پاؤں میں ناخن برابر جگہ خشک تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واپس جاؤ اور اچھے طریقے سے وضوء کرو۔ [صحيح: صحيح أبوداود، أبوداود 173، ابن ماجه 665، احمد 146/3]
معلوم ہوا کہ تمام اعضائے وضو کو مکمل طور پر دھونا واجب ہے اور اگر کسی ایک عضو کا کچھ حصہ بھی خشک رہ گیا تو وضوء مکمل نہیں ہو گا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 140