(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الملك بن زنجوية، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: حدثنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة في عمرة القضاء، وابن رواحة بين يديه يقول: خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تاويله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله , قال عمر: يا ابن رواحة في حرم الله وبين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، تقول هذا الشعر؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" خل عنه، فوالذي نفسي بيده لكلامه اشد عليهم من وقع النبل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُويَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ، وَابْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَأْوِيلِهِ ضَرَبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ , قَالَ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ فِي حَرَمِ اللَّهِ وَبَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلِّ عَنْهُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَلَامُهُ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ وَقْعِ النَّبْلِ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ قضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن رواحہ آپ کے آگے تھے اور کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تأويله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله»”اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ، ۱؎ ان کے اشارے پر آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو تمہارے سروں کو گردنوں سے اڑا دے گی اور دوست کو اس کے دوست سے غافل کر دے گی“، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن رواحہ رضی اللہ عنہ! تم اللہ کے حرم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوڑو انہیں (پڑھنے دو) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان کے یہ اشعار کفار پر تیر لگنے سے بھی زیادہ سخت ہیں“۔
وضاحت: ۱؎: باب پر استدلال ابن رواحہ کے اسی قول «خلو بنی الکفار» سے ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2896
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر 2876۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ (3)”آپ کا راستہ چھوڑ دو“ ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2896
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2876
´حرم میں شعر پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله»”اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو)، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2876]
اردو حاشہ: (1)”عمرۃ القضاء“ یہ 7 ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ (3) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔ (4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2876
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2847
´شعر پڑھنے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله»”اے کفار کی اولاد! اس کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی“ عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2847]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: حافظ ابن حجرنے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے، کہتے ہیں: امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃالقضا جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2847