(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , حدثنا المثنى بن سعيد , عن قتادة , عن بشير بن كعب العدوي , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا تشاجرتم في الطريق , فاجعلوه سبعة اذرع ". قال ابو عيسى: وهذا اصح من حديث وكيع. قال: وفي الباب , عن ابن عباس. قال ابو عيسى: حديث بشير بن كعب العدوي , عن ابي هريرة حديث حسن صحيح , وروى بعضهم هذا عن قتادة , عن بشير بن نهيك , عن ابي هريرة , وهو غير محفوظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَشَاجَرْتُمْ فِي الطَّرِيقِ , فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ (چوڑا) رکھو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ (سابقہ) وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- بشیر بن کعب کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، اور بعض نے اسے قتادہ سے اور قتادہ نے بشیر بن نہیک سے اور بشیر نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور جانوروں کے آنے جانے کے لیے کافی ہے، جسے دونوں فریق کو مل کر چھوڑنا چاہیئے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3633
´قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی راستہ کے متعلق جھگڑو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دو ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3633]
فوائد ومسائل: فائدہ: گلیوں کا تنگ ہونا اور راستے کا تنگ کرنا اسلامی تہذیب وثقافت کے منافی ہے۔ گلیاں مناسب طور پر کھلی ہونی چاہیں۔ سات ہاتھ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک اونٹ آرہا ہو۔ اور ایک جانور جا رہا ہو۔ تو دونوں آسانی سے گزر جایئں، لیکن آجکل مزید کشادگی ضروری ہے۔ تاکہ موجودہ دور کی ٹریفک آجا سکے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3633
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2473
2473. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2473]
حدیث حاشیہ: ایک متمدن ملک کے شہری قوانین میں ہر قسم کے انتظامات کا لحاظ بے حد ضروری ہے۔ شارع عام کے لیے جگہ مقرر کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ طریق میتاءجس کا ذکر باب میں ہے ا س کا معنی چوڑا یا عام راستہ۔ بعض نے کہا کہ میتاءسے یہ مراد ہے کہ نا آباد زمین اگر آباد ہو اور وہاں راستہ قائم کرنے کی ضرورت پڑے اور رہنے والے لوگ وہاں جھگڑا کریں تو کم سے کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دی جائے جو آدمیوں اور سواریوں کے نکلنے کے لیے کافی ہے۔ قسطلانی نے کہا، جو دکاندار راستے پر بیٹھا کرتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر راستہ سات ہاتھ سے زیادہ ہو تو وہ فالتو حصہ میں بیٹھ سکتے ہیں۔ ورنہ سات ہاتھ کے اندر اندر ان کو بیٹھنے سے منع کیا جائے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ یہ وہ انتظامی قانون ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل اسلام نے وضع فرمایا۔ جو بعد میں بیشتر ملکوں کا شہری ضابطہ قرار پایا۔ یہ پیغمبر اسلام ﷺ کا وہ خدائی فہم تھا جو اللہ نے آپ ﷺ کو عطا فرما یا تھا۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں گاڑیوں، موٹروں، چھکڑوں، بگھیوں کا رواج نہ تھا۔ اونٹ اور آدمیوں کے آنے جانے کے لیے تین ہاتھ راستہ بھی کفایت کرتا ہے مگر عام ضروریات اور مستقبل کی تمدنی شہری ترقیوں کے پیش نظر ضروری تھا کہ کم از کم سات ہاتھ زمین گزر گاہ عام کے لیے چھوڑی جائے کیوں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانے اور آنے والی سواریوں کی مڈبھیڑ ہو جاتی ہے۔ تو دونوں کے برابر نکل جانے کے لیے کم از کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے مقرر ہونی ضروری ہے کیوں کہ اتنے راستے میں ہر دو طرف کی سواریاں بآسانی نکل سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2473
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2473
2473. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2473]
حدیث حاشیہ: (1) سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور حیوانات کے آنے جانے کے لیے کافی ہے۔ آج کل بڑی بڑی گاڑیوں کا دور ہے، اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سات ہاتھ سے زیادہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جو لوگ راستے میں بیٹھ کر سبزی یا پھل وغیرہ بیچتے ہیں ان کے لیے بھی یہی حکم ہے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ (2) حدیث کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی بھی مقدار پر راضی ہو جائیں تو وہی فیصلہ ہو گا۔ جھگڑے کی صورت میں سات ہاتھ تک راستہ تجویز کیا جائے گا تاکہ بار برداری کے جانوروں کو آنے جانے میں آسانی ہو۔ اگر پہلے سے کوئی راستہ اس سے وسیع ہے تو اسے تنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2473