سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
31. باب فِي الْقَضَاءِ
31. باب: قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔
Chapter: Regarding judicial matters.
حدیث نمبر: 3633
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا المثنى بن سعيد، حدثنا قتادة، عن بشير بن كعب العدوي، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا تداراتم في طريق فاجعلوه سبعة اذرع".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا تَدَارَأْتُمْ فِي طَرِيقٍ فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی راستہ کے متعلق جھگڑو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 20 (1356)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 16 (2338)، (تحفة الأشراف: 12223)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المظالم 29 (2473)، صحیح مسلم/المساقاة 31 (1613)، مسند احمد (2/466، 474) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ راہ چلنے والوں اور جانوروں کے لئے اتنا کافی ہے۔

Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If you dispute over a pathway, leave the margin of seven yards.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3626


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
أصله عند مسلم (1613) والبخاري (2473) نحو المعنٰي

   صحيح البخاري2473عبد الرحمن بن صخرإذا تشاجروا في الطريق بسبعة أذرع
   صحيح مسلم4139عبد الرحمن بن صخرإذا اختلفتم في الطريق جعل عرضه سبع أذرع
   جامع الترمذي1356عبد الرحمن بن صخرإذا تشاجرتم في الطريق فاجعلوه سبعة أذرع
   جامع الترمذي1355عبد الرحمن بن صخراجعلوا الطريق سبعة أذرع
   سنن أبي داود3633عبد الرحمن بن صخرإذا تدارأتم في طريق فاجعلوه سبعة أذرع
   سنن ابن ماجه2338عبد الرحمن بن صخراجعلوا الطريق سبعة أذرع
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3633 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3633  
فوائد ومسائل:
فائدہ: گلیوں کا تنگ ہونا اور راستے کا تنگ کرنا اسلامی تہذیب وثقافت کے منافی ہے۔
گلیاں مناسب طور پر کھلی ہونی چاہیں۔
سات ہاتھ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک اونٹ آرہا ہو۔
اور ایک جانور جا رہا ہو۔
تو دونوں آسانی سے گزر جایئں، لیکن آجکل مزید کشادگی ضروری ہے۔
تاکہ موجودہ دور کی ٹریفک آجا سکے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3633   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1356  
´راستے کے سلسلہ میں جب اختلاف ہو تو اسے کتنا چھوڑا جائے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ (چوڑا) رکھو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1356]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سات ہاتھ راستہ آدمیوں اورجانوروں کے آنے جانے کے لیے کافی ہے،
جسے دونوں فریق کو مل کر چھوڑنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1356   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2473  
2473. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2473]
حدیث حاشیہ:
ایک متمدن ملک کے شہری قوانین میں ہر قسم کے انتظامات کا لحاظ بے حد ضروری ہے۔
شارع عام کے لیے جگہ مقرر کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔
طریق میتاءجس کا ذکر باب میں ہے ا س کا معنی چوڑا یا عام راستہ۔
بعض نے کہا کہ میتاءسے یہ مراد ہے کہ نا آباد زمین اگر آباد ہو اور وہاں راستہ قائم کرنے کی ضرورت پڑے اور رہنے والے لوگ وہاں جھگڑا کریں تو کم سے کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دی جائے جو آدمیوں اور سواریوں کے نکلنے کے لیے کافی ہے۔
قسطلانی نے کہا، جو دکاندار راستے پر بیٹھا کرتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر راستہ سات ہاتھ سے زیادہ ہو تو وہ فالتو حصہ میں بیٹھ سکتے ہیں۔
ورنہ سات ہاتھ کے اندر اندر ان کو بیٹھنے سے منع کیا جائے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
یہ وہ انتظامی قانون ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل اسلام نے وضع فرمایا۔
جو بعد میں بیشتر ملکوں کا شہری ضابطہ قرار پایا۔
یہ پیغمبر اسلام ﷺ کا وہ خدائی فہم تھا جو اللہ نے آپ ﷺ کو عطا فرما یا تھا۔
آپ ﷺ کے عہد مبارک میں گاڑیوں، موٹروں، چھکڑوں، بگھیوں کا رواج نہ تھا۔
اونٹ اور آدمیوں کے آنے جانے کے لیے تین ہاتھ راستہ بھی کفایت کرتا ہے مگر عام ضروریات اور مستقبل کی تمدنی شہری ترقیوں کے پیش نظر ضروری تھا کہ کم از کم سات ہاتھ زمین گزر گاہ عام کے لیے چھوڑی جائے کیوں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانے اور آنے والی سواریوں کی مڈبھیڑ ہو جاتی ہے۔
تو دونوں کے برابر نکل جانے کے لیے کم از کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے مقرر ہونی ضروری ہے کیوں کہ اتنے راستے میں ہر دو طرف کی سواریاں بآسانی نکل سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2473   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2473  
2473. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2473]
حدیث حاشیہ:
(1)
سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور حیوانات کے آنے جانے کے لیے کافی ہے۔
آج کل بڑی بڑی گاڑیوں کا دور ہے، اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سات ہاتھ سے زیادہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
جو لوگ راستے میں بیٹھ کر سبزی یا پھل وغیرہ بیچتے ہیں ان کے لیے بھی یہی حکم ہے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
(2)
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی بھی مقدار پر راضی ہو جائیں تو وہی فیصلہ ہو گا۔
جھگڑے کی صورت میں سات ہاتھ تک راستہ تجویز کیا جائے گا تاکہ بار برداری کے جانوروں کو آنے جانے میں آسانی ہو۔
اگر پہلے سے کوئی راستہ اس سے وسیع ہے تو اسے تنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2473   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.