(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الحميد بن سليمان، عن ابن عجلان، عن ابن وثيمة النصري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض ". قال: وفي الباب، عن ابي حاتم المزني، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة قد خولف عبد الحميد بن سليمان في هذا الحديث، ورواه الليث بن سعد، عن ابن عجلان، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا. قال ابو عيسى: قال محمد: وحديث الليث اشبه، ولم يعد حديث عبد الحميد محفوظا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ قَدْ خُولِفَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَشْبَهُ، وَلَمْ يَعُدَّ حَدِيثَ عَبْدِ الْحَمِيدِ مَحْفُوظًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق: «ابن عجلان عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً (منقطعاً) روایت کی ہے (یعنی: ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کا کہنا ہے کہ لیث کی حدیث اشبہ (قریب تر) ہے، انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 46 (1967) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم: 1868، الصحیحة 1022)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1668)، الصحيحة (1022)
قال الشيخ زبير على زئي: (1084) إسناده ضعيف / جه 1967 ابن عجلان عنعن (د 128) وتلميذه عبد الحميد بن سليمان:ضعيف (تق:3764) وانظر الحديث الآتي:1085
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1967
´(شادی میں) کفو کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1967]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رشتہ کرتے وقت اخلاق و کردار اور دینی حالت کو پیش نظر رکھنا چائیے۔ ہم مرتبہ (کفو) ہونے کا مطلب یہی ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیث باب 6 میں گزر چکی ہے (سنن ابن ماجة،، حدیث: 1858)
(2) اگر دین کے علاوہ خاندان اورمال وغیرہ کو پیش نظر رکھا جائے تو کئی نیک لڑکیاں بےنکاح رہ جائیں گی۔ اور یہ چیز ان کےلیے تو دین کے لحاظ سے نیک نہ ہونےکی وجہ سےجھگڑے پیدا ہوں گے اور یہی مال و جمال یا اونچا خاندان مصیبت کا باعث بن جائے گا۔
(3) یہ روایت بعض حضرات کےنزدیک حسن ہے۔ (دیکھئے: إرواء الغلیل: 6/ 266، رقم: 1868، والصحیحة، رقم: 1022)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1967