بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، لیکن فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے ساری نماز پڑھیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺ کی عام عادت مبارکہ یہی تھی، فتح مکہ سے پہلے بھی آپ کا ایسا کرنا ثابت ہے۔
Sulaiman bin Buraidah narrated from his father that:
The Prophet used to perform ablution for every prayer, but on the day of the conquest of Makkah, he performed all of the prayers with one ablution.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث510
اردو حاشہ: * نبی اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے دن آپ نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں: ۔ 1 ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا صرف آپ ہی کے لیے واجب ہواور امت کے لیے واجب نہ ہو۔ پھر یہ وجوب فتح مکہ کے دن ختم کردیا گیا اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا افضل ہونا باقی رہ گیا 2 اپ کا یہ فعل مستحب تھا مگر آپ نے اس ڈر سے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض قرار نہ دے دیا جائے جیسا کہ آپ نے نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنا چھوڑدیا تھا۔ دیکھیے: (فتح الباري: 1؍412)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 510
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 172
´آدمی ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے` «. . . صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک ہی وضو سے پانچ نمازیں ادا کیں . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 172]
توضیح: تاکہ کوئی یہ نہ سمجھےکہ ایک وضو سے متعدد نمازیں نہیں پڑھی جا سکتیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 172
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 133
´ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، تو جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ نے کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ نہیں کرتے تھے ۱؎؟ فرمایا: ”عمر! میں نے اسے عمداً (جان بوجھ کر) کیا ہے“۲؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 133]
133۔ اردو حاشیہ: ”آپ اس سے پہلے نہیں کرتے تھے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات عمومی عادت کا لحاظ رکھتے ہوئے یا اپنے علم کے مطابق کہی ورنہ فتح مکہ سے قبل بھی آپ سے بعض اوقات یہ ثابت ہے، مثلاً: خیبر کے موقع پر جبکہ آپ کو ستو پیش کیے گئے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 209]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 133
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 61
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان۔` بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 61]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں، لیکن عبدالرحمن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مؤلف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے، ”فافهم“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 61
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 642
سلیمان بن بریدہ اپنے باپؓ سے بیان کرتے ہیں: ”کہ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن سب نمازیں ایک وضو سے پڑھیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا“ تو حضرت عمر ؓ نے آپ سے پوچھا: آپ نے آج ایسا کام کیا، جو آپ نے پہلے کبھی نہیں کیا؟ تو آپ نے جواب دیا: ”اے عمر! میں نے عمداً یہ کام کیا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:642]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا، جب تک انسان بے وضو نہ ہو تو وہ متعدد فرائض ونوافل ایک وضوسے ہی ادا کرسکتا ہے۔ یہ حدیث آیت مبارکہ: ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ﴾ کے منافی نہیں ہے، کیونکہ آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے۔ ”اگرتمہارا وضو نہ ہو اور تم نماز کے لیے اٹھو تووضو کرلو“ تاہم دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، وضو کی موجودگی میں وضو کرلینا، نور علی نور ہے، کیونکہ آپ ﷺ عام طور پر ہرنماز کے لیے وضو کرتے تھے، اورآیت کا ظاہری تقاضا یہی ہے۔ (شرح النووي: ج/135)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 642
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 14
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ پھر فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ معمر اور وکیع کے سوا کسی نے یہ روایت امام سفیان ثوری سے مسند بیان نہیں کی... [صحيح ابن خزيمه ح: 14]
فوائد:
موزوں پر مسح جائز ہے۔ ایک وضو سے متعدد فرض و نفل نمازیں جائز ہیں تا وقتیکہ آدمی بے وضو نہ ہو۔ اس کا جواز اکثر علماء سے منقول ہے، جب کہ ابو جعفر طبری اور ابوالحسن بن باطل نے علماء کے گروہ سے نقل کیا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو واجب قرار دیتے ہیں، خواہ نمازی باوضو ہی ہو اور ان کی دلیل یہ آیت «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ»[المائدة: 6] ہے۔ میں (نوویؒ) خیال کرتا ہوں کہ یہ مذہب کسی بھی اہل علم سے صحیح ثابت معلوم نہیں ہوتا اور ہو سکتا اس سے مراد یہ ہو کہ ہر نماز کے وقت تجدید وضو مستحب عمل ہے۔ جمہور علماء (کے موقف کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا جائز ہیں) پر کئی احادیث صحیحہ ہیں، جن میں ایک حدیث الباب ہے، دوم، صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ کی مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا کی، پھر ستو نتناول فرمائے بعد ازاں نیا وضو کیے بغیر نماز مغرب ادا کی۔ اس طرح اس معنی و مفہوم کی بے شمار روایات ہیں۔ عرفہ، مزدلفہ اور تمام سفروں میں ایک وضو سے دو دو نمازیں جمع کرنا اور غزوہ خندق کے دن چھوٹی ہوئی نمازیں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) ایک وضو سے ادا کرنا (یہ تمام احادیث ایک وضو سے متعدد نمازوں کے جواز کی دلیل ہیں۔) اور آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ جب تم بے وضو ہو اور نماز قائم کرنا چاہو تو وضو کیا کرو۔ [نووي: 176/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 14