سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
45. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ
45. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Had Been Related About Performing The (Five Obligatory) Prayers With One Wudu
حدیث نمبر: 61
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا لكل صلاة، فلما كان عام الفتح صلى الصلوات كلها بوضوء واحد ومسح على خفيه , فقال عمر: إنك فعلت شيئا لم تكن فعلته. قال: " عمدا فعلته ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وروى هذا الحديث علي بن قادم، عن سفيان الثوري وزاد فيه: توضا مرة مرة، قال: وروى سفيان الثوري هذا الحديث ايضا، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يتوضا لكل صلاة , ورواه وكيع، عن سفيان، عن محارب، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: ورواه عبد الرحمن بن مهدي وغيره، عن سفيان، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وهذا اصح من حديث وكيع، والعمل على هذا عند اهل العلم، انه يصلي الصلوات بوضوء واحد ما لم يحدث، وكان بعضهم يتوضا لكل صلاة، استحبابا وإرادة الفضل، ويروى عن الافريقي، عن ابي غطيف، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من توضا على طهر كتب الله له به عشر حسنات " , وهذا إسناد ضعيف وفي الباب عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر والعصر بوضوء واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ , فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَهُ. قَالَ: " عَمْدًا فَعَلْتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَزَادَ فِيهِ: تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً، قَالَ: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ , وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ، وَكَانَ بَعْضُهُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ، وَيُرْوَى عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ " , وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا،
۳- سفیان ثوری نے بسند «محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» (مرسلاً روایت کیا ہے) کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے،
۴- اور اسے وکیع نے بسند «سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ» سے روایت کیا ہے،
۵- نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند «سفیان عن محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،
۶- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، جب تک «حدث» نہ ہو،
۷- بعض اہل علم استحباب اور فضیلت کے ارادہ سے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے،
۸- نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسند «ابی غطیفعن ابن عمر» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو پر وضو کرے گا تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا اس حدیث کی سند ضعیف ہے،
۹- اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک وضو سے ظہر اور عصر دونوں پڑھیں۔

وضاحت:
۱؎: یعنی عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں، لیکن عبدالرحمٰن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مولف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے، فافہم۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 25 (277) سنن ابی داود/ الطہارة 66 (172) سنن ابن ماجہ/الطہارة 72 (510) (تحفة الأشراف: 1928) مسند احمد (5/350، 351، 358) سنن الدارمی/الطہارة 3 (685) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (510)

   جامع الترمذي61عامر بن الحصيبلما كان عام الفتح صلى الصلوات كلها بوضوء واحد مسح على خفيه
   سنن أبي داود172عامر بن الحصيبصلى رسول الله يوم الفتح خمس صلوات بوضوء واحد مسح على خفيه
   صحيح مسلم642عامر بن الحصيبصلى الصلوات يوم الفتح بوضوء واحد مسح على خفيه
   سنن النسائى الصغرى133عامر بن الحصيبيتوضأ لكل صلاة لما كان يوم الفتح صلى الصلوات بوضوء واحد
   صحيح ابن خزيمة13عامر بن الحصيبيتوضأ لكل صلاة يوم فتح مكة فإنه شغل فجمع بين الظهر والعصر بوضوء واحد
   صحيح ابن خزيمة12عامر بن الحصيبيتوضأ عند كل صلاة لما كان يوم الفتح توضأ مسح على خفيه صلى الصلوات بوضوء واحد
   صحيح ابن خزيمة14عامر بن الحصيبيتوضأ لكل صلاة لما كان يوم فتح مكة صلى الصلوات كلها بوضوء واحد
   سنن ابن ماجه510عامر بن الحصيبيتوضأ لكل صلاة لما كان يوم فتح مكة صلى الصلوات كلها بوضوء واحد

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 61 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 61  
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں،
لیکن عبدالرحمن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مؤلف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے،
فافهم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 61   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 172  
´آدمی ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے`
«. . . صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک ہی وضو سے پانچ نمازیں ادا کیں . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 172]
توضیح:
تاکہ کوئی یہ نہ سمجھےکہ ایک وضو سے متعدد نمازیں نہیں پڑھی جا سکتیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 172   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 133  
´ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، تو جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ نے کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ نہیں کرتے تھے ۱؎؟ فرمایا: عمر! میں نے اسے عمداً (جان بوجھ کر) کیا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 133]
133۔ اردو حاشیہ: آپ اس سے پہلے نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات عمومی عادت کا لحاظ رکھتے ہوئے یا اپنے علم کے مطابق کہی ورنہ فتح مکہ سے قبل بھی آپ سے بعض اوقات یہ ثابت ہے، مثلاً: خیبر کے موقع پر جبکہ آپ کو ستو پیش کیے گئے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 209]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 133   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث510  
´ہر نماز کے لیے وضو کرنے اور ایک وضو سے ساری نمازیں پڑھنے کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، لیکن فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے ساری نماز پڑھیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 510]
اردو حاشہ:
* نبی اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے دن آپ نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔
اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
۔
1      ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا صرف آپ ہی کے لیے واجب ہواور امت کے لیے واجب نہ ہو۔
پھر یہ وجوب فتح مکہ کے دن ختم کردیا گیا اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا افضل ہونا باقی رہ گیا 2      اپ کا یہ فعل مستحب تھا مگر آپ نے اس ڈر سے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض قرار نہ دے دیا جائے جیسا کہ آپ نے نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنا چھوڑدیا تھا۔ دیکھیے: (فتح الباري: 1؍412)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 510   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 642  
سلیمان بن بریدہ اپنے باپؓ سے بیان کرتے ہیں: کہ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن سب نمازیں ایک وضو سے پڑھیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا تو حضرت عمر ؓ نے آپ سے پوچھا: آپ نے آج ایسا کام کیا، جو آپ نے پہلے کبھی نہیں کیا؟ تو آپ نے جواب دیا: اے عمر! میں نے عمداً یہ کام کیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:642]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا،
جب تک انسان بے وضو نہ ہو تو وہ متعدد فرائض ونوافل ایک وضوسے ہی ادا کرسکتا ہے۔
یہ حدیث آیت مبارکہ:
﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ﴾ کے منافی نہیں ہے،
کیونکہ آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے۔
اگرتمہارا وضو نہ ہو اور تم نماز کے لیے اٹھو تووضو کرلو تاہم دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے،
وضو کی موجودگی میں وضو کرلینا،
نور علی نور ہے،
کیونکہ آپ ﷺ عام طور پر ہرنماز کے لیے وضو کرتے تھے،
اورآیت کا ظاہری تقاضا یہی ہے۔
(شرح النووي:
ج/135)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 642   

  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 14  
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ پھر فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ معمر اور وکیع کے سوا کسی نے یہ روایت امام سفیان ثوری سے مسند بیان نہیں کی... [صحيح ابن خزيمه ح: 14]
فوائد:
موزوں پر مسح جائز ہے۔ ایک وضو سے متعدد فرض و نفل نمازیں جائز ہیں تا وقتیکہ آدمی بے وضو نہ ہو۔ اس کا جواز اکثر علماء سے منقول ہے، جب کہ ابو جعفر طبری اور ابوالحسن بن باطل نے علماء کے گروہ سے نقل کیا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو واجب قرار دیتے ہیں، خواہ نمازی باوضو ہی ہو اور ان کی دلیل یہ آیت «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ» [المائدة: 6] ہے۔ میں (نوویؒ) خیال کرتا ہوں کہ یہ مذہب کسی بھی اہل علم سے صحیح ثابت معلوم نہیں ہوتا اور ہو سکتا اس سے مراد یہ ہو کہ ہر نماز کے وقت تجدید وضو مستحب عمل ہے۔ جمہور علماء (کے موقف کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا جائز ہیں) پر کئی احادیث صحیحہ ہیں، جن میں ایک حدیث الباب ہے، دوم، صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ کی مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا کی، پھر ستو نتناول فرمائے بعد ازاں نیا وضو کیے بغیر نماز مغرب ادا کی۔ اس طرح اس معنی و مفہوم کی بے شمار روایات ہیں۔ عرفہ، مزدلفہ اور تمام سفروں میں ایک وضو سے دو دو نمازیں جمع کرنا اور غزوہ خندق کے دن چھوٹی ہوئی نمازیں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) ایک وضو سے ادا کرنا (یہ تمام احادیث ایک وضو سے متعدد نمازوں کے جواز کی دلیل ہیں۔) اور آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ جب تم بے وضو ہو اور نماز قائم کرنا چاہو تو وضو کیا کرو۔ [نووي: 176/3]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 14   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.