سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
29. بَابُ : الْمُبَارَزَةِ وَالسَّلَبِ
29. باب: دشمن کو دعوت مبارزت دینے (مقابلے کے لیے للکارنے) اور سامان جنگ لوٹنے کا بیان۔
Chapter: Single combat and plundering
حدیث نمبر: 2836
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا ابو العميس وعكرمة بن عمار ، عن إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال:" بارزت رجلا فقتلته، فنفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلبه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ وَعِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" بَارَزْتُ رَجُلًا فَقَتَلْتُهُ، فَنَفَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَبَهُ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو مقابلہ کے لیے للکارا، اور اسے قتل کر ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چھینا ہوا سامان بطور انعام مجھے ہی دے دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4529، ومصباح الزجاجة: 1006) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 173 (3051)، صحیح مسلم/الجہاد 13 (1754)، مسند احمد (4/45، 46)، سنن الدارمی/السیر 15 (2495) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري3051سلمة بن عمروقتله فنفله سلبه
   صحيح مسلم4572سلمة بن عمرومن قتل الرجل قالوا ابن الأكوع قال له سلبه أجمع
   سنن أبي داود2654سلمة بن عمرومن قتل الرجل فقالوا سلمة بن الأكوع فقال له سلبه أجمع
   سنن ابن ماجه2836سلمة بن عمرونفلني رسول الله سلبه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2836 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2836  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سلب سے مراد مقتول کا ذاتی سامان ہے مثلاً:
لباس، تلوار وغیرہ۔
یہ چیزیں اسی مجاہد کا حق ہیں جو اس کافر کو قتل کرے۔

(2)
سلب کے علاوہ باقی مال غنیمت مجاہدین کی اجتماعی ملکیت ہے۔
اس میں سے ہر مجاہد وہی کچھ لے سکتا ہے۔
جو مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اس کے حصے میں آئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2836   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2654  
´جو کافر امن لے کر مسلمانوں میں جاسوسی کے لیے آیا ہو اس کے حکم کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں: ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2654]
فوائد ومسائل:

کافر جاسوس خواہ مستامن ہی ہو۔
(اجازت لے کر مسلمانوں کے پاس لے کر آیا ہو) قتل کیا جا سکتا ہے۔
کیونکہ وہ حربی کافروں میں شامل ہے۔


کافر مقتول کا خاص سامان اس کے قاتل مجاہد کو دیا جاتا ہے۔
اسے سلب کہتے ہیں۔


جہاد میں کامیابی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تقویٰ ہے۔
دیگر وسائل محض ظاہری اسباب ہوتے ہیں۔
لیکن ان سے صرف نظر کرنا جائز نہیں۔


حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوعمر جوان تھے۔
اور تیز دوڑنے میں نہایت ممتاز تھے۔
اس لئے اونٹ سوار کو جا پکڑا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2654   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4572  
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہوازن سے جنگ لڑی اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا اور اس نے اسے بٹھا دیا اور اپنی کمر سے اس کے لیے تسمہ نکال کر اس کے ساتھ اونٹ کو باندھ دیا، پھر لوگوں کے ساتھ صبح کا کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا اور جائزہ لینے لگا، ہم میں کمزور لوگ تھے یا کمزوری تھی اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4572]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاسوس کو قتل کرنا درست ہے،
اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور مسلمان جاسوس کو،
امام ابو حنیفہ،
شافعی اور بعض مالکیہ کے نزدیک قتل کے سوا امام جو چاہے سزا دے سکتا ہے،
امام مالک کے نزدیک امام کا اختیار ہے،
وقت کے مطابق جو چاہے کرے اور بعض مالکیہ کا خیال ہے،
اس کو قتل کر دیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4572   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3051  
3051. حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس مشرکین کا ایک جاسوس آیا جبکہ آپ سفر میں تھے۔ وہ صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا، پھر اٹھ کر چل دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: اسے ڈھونڈکرقتل کر ڈالو۔ (حضرت سلمہ ؓنے کہا:)میں نے اسے قتل کیا تو آپ نے انھیں اس جاسوس کا سامان بھی دلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3051]
حدیث حاشیہ:

حضرت سلمہ بن اکوع ؓنے جس شخص کو قتل کیا تھا وہ جنگجو تھا اور امان لیے بغیر ہی چلا آیا تھا۔
اگرچہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ امان لے کر آیا تھا لیکن جب اس نے اپنا کام کر لیا اور جاسوسی پوری کرلی تو جلدی سے اٹھااور تیزی سے دوڑنے لگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ امان لیے بغیر دارالاسلام میں داخل ہوا تھا اس لیے اسے قتل کردیا گیا۔

اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جنگ کی جاسوسی کرنے والے کو قتل کردیا جائے۔
یہ جنگ ہوازن کا واقعہ ہے قبل ازیں مال غنیمت کے احکام نازل ہو چکے تھے کہ وہ صرف اللہ کے لیے ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس عام قرآنی حکم کو خاص فرمایا کہ کافر کا ساز و سامان اسے قتل کرنے والے کو ملتا ہے۔
(فتح الباري: 204/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3051   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.