ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ دھوکہ ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جنگ میں دھوکہ دھڑی جس طرح سے بھی ہو سکے مثلاً کافروں میں نااتفاقی ڈلوا دینا، ان کے سامنے سے بھاگنا تاکہ وہ پیچھا کریں پھر ان کو ہلاکت و بربادی کے مقام پر لے جانا، اسی طرح اور سب مکر و حیلہ درست اور جائز ہے، لیکن عہد کر کے اس کا توڑنا جائز نہیں (نووی)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17361، ومصباح الزجاجة: 1004) (صحیح)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح، بلکہ متواتر ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 2370)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2833
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جنگ کا بنیادی مقصد دشمن پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے اس کی جنگی چالوں کو ناکام بنانا ضروری ہے۔
(2) جنگ میں دھوکا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی نقل وحرکت کی جائے جس سے دشمن دھوکا کھا جائےاور مسلمانوں کی فوج کے اصل مقصد کو نہ سمجھ سکے لہٰذا بروقت مسلمانوں کی چال کا توڑ نہ کرسکے۔
(3) رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی طرف جنگی مہم روانہ کرنے کا ارادہ ہوتا تو کسی دوسری طرف کے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔ (صحيح البخاري، المغازي، باب حديث كعب بن مالك، حديث: 4418) مقصد یہ ہوتا تھا کہ بات اگر دشمن کے کسی جاسوس تک پہنچے تو وہ اس سے صحیح نتیجہ نہ نکال سکے اور اس طرح دشمن اندھیرے میں رہے۔
(4) اس لفظ کو (خدعة) بھی پڑھا گیا ہے یعنی جنگ دھوکا دینے والی چیز ہے۔ ہر فریق فتح کی امید رکھتے ہوئے لڑتا ہے لیکن ہر ایک کی امید پوری نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2833