(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله، ان هاشم بن القاسم، وهشاما حدثاهم، قالا: حدثنا عكرمة، قال: حدثني إياس بن سلمة، قال: حدثني ابي، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن قال: فبينما نحن نتضحى وعامتنا مشاة وفينا ضعفة، إذ جاء رجل على جمل احمر فانتزع طلقا من حقو البعير فقيد به جمله ثم جاء يتغدى مع القوم فلما راى ضعفتهم ورقة ظهرهم خرج يعدو إلى جمله فاطلقه ثم اناخه، فقعد عليه ثم خرج يركضه واتبعه رجل من اسلم على ناقة ورقاء هي امثل ظهر القوم قال: فخرجت اعدو فادركته وراس الناقة عند ورك الجمل، وكنت عند ورك الناقة ثم تقدمت حتى كنت عند ورك الجمل ثم تقدمت حتى اخذت بخطام الجمل فانخته فلما وضع ركبته بالارض اخترطت سيفي، فاضرب راسه فندر فجئت براحلته وما عليها اقودها فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس مقبلا فقال:" من قتل الرجل؟ فقالوا: سلمة بن الاكوع فقال له: سلبه اجمع"، قال هارون: هذا لفظ هاشم. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ هَاشِمَ بْنَ الْقَاسِمِ، وَهِشَامًا حَدَّثَاهُمْ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَتَضَحَّى وَعَامَّتُنَا مُشَاةٌ وَفِينَا ضَعَفَةٌ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ فَانْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقْوِ الْبَعِيرِ فَقَيَّدَ بِهِ جَمَلَهُ ثُمَّ جَاءَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ فَلَمَّا رَأَى ضَعَفَتَهُمْ وَرِقَّةَ ظَهْرِهِمْ خَرَجَ يَعْدُو إِلَى جَمَلِهِ فَأَطْلَقَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ يَرْكُضُهُ وَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ هِيَ أَمْثَلُ ظَهْرِ الْقَوْمِ قَالَ: فَخَرَجْتُ أَعْدُو فَأَدْرَكْتُهُ وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، وَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَأَنَخْتُهُ فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ بِالْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَأَضْرِبُ رَأْسَهُ فَنَدَرَ فَجِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ وَمَا عَلَيْهَا أَقُودُهَا فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ مُقْبِلًا فَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟ فَقَالُوا: سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ فَقَالَ لَهُ: سَلَبُهُ أَجْمَعُ"، قَالَ هَارُونُ: هَذَا لَفْظُ هَاشِمٍ.
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں: ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے ہوئے تیزی کے ساتھ چل پڑا (جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جاسوس ہے) تو قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی خاکستری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا اور یہ لوگوں کی سواریوں میں سب سے بہتر تھی، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا اور حال یہ تھا کہ اونٹنی کا سر اونٹ کے پٹھے کے پاس اور میں اونٹنی کے پٹھے پر تھا، پھر میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں اونٹ کے پٹھے کے پاس پہنچ گیا، پھر آگے بڑھ کر میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھایا، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا تو میں نے تلوار میان سے نکال کر اس کے سر پر ماری تو اس کا سر اڑ گیا، میں اس کا اونٹ مع ساز و سامان کے کھینچتے ہوئے لایا تو لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا: ”اس شخص کو کس نے مارا؟“ لوگوں نے بتایا: سلمہ بن اکوع نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا سارا سامان انہی کو ملے گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امن حاصل کرنے والے کافر کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ جاسوس ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الجہاد 13 (1754)، (تحفة الأشراف: 4517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/49، 51) (حسن)» (مؤلف کی اس سند سے حسن ہے، نیز یہ واقعہ صحیحین میں بھی ہے، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے)
Salamh (bin Al Akwa) said “I went on an expedition with the Messenger of Allah ﷺ against Hawazin and while we were having a meal in the forenoon and most of our people were on foot and some of us were weak, a man came on a red Camel. He took out a rope from the lion of the Camel and tied his Camel with it and began to take meal with the people. When he saw the weak condition of their people and lack of mounts he went out in a hurry to his Camel, untied it made it kneel down and sat on it and went off galloping it. A man of the tribe of Aslam followed him on a brown she Camel which was best of those of the people. I hastened out and I found him while the head of the she Camel was near the paddock of the she Camel. I then went ahead till I reached near the paddock of the Camel. I then went ahead till I caught the Camel’s nose string. I made it kneel. When it placed its knee on the ground, I drew my sword and struck the man on his head and it fell down. I then brought the Camel leading it with (its equipment) on it. The Messenger of Allah ﷺ came forward facing me and asked “Who killed the man? They (the people) said “Salamah bin Akwa. He said “he gets all his spoil. ” Harun said “This is Hashim’s version.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2648
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2836
´دشمن کو دعوت مبارزت دینے (مقابلے کے لیے للکارنے) اور سامان جنگ لوٹنے کا بیان۔` سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو مقابلہ کے لیے للکارا، اور اسے قتل کر ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چھینا ہوا سامان بطور انعام مجھے ہی دے دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2836]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سلب سے مراد مقتول کا ذاتی سامان ہے مثلاً: لباس، تلوار وغیرہ۔ یہ چیزیں اسی مجاہد کا حق ہیں جو اس کافر کو قتل کرے۔
(2) سلب کے علاوہ باقی مال غنیمت مجاہدین کی اجتماعی ملکیت ہے۔ اس میں سے ہر مجاہد وہی کچھ لے سکتا ہے۔ جو مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اس کے حصے میں آئے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2836
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4572
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہوازن سے جنگ لڑی اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا اور اس نے اسے بٹھا دیا اور اپنی کمر سے اس کے لیے تسمہ نکال کر اس کے ساتھ اونٹ کو باندھ دیا، پھر لوگوں کے ساتھ صبح کا کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا اور جائزہ لینے لگا، ہم میں کمزور لوگ تھے یا کمزوری تھی اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4572]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاسوس کو قتل کرنا درست ہے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور مسلمان جاسوس کو، امام ابو حنیفہ، شافعی اور بعض مالکیہ کے نزدیک قتل کے سوا امام جو چاہے سزا دے سکتا ہے، امام مالک کے نزدیک امام کا اختیار ہے، وقت کے مطابق جو چاہے کرے اور بعض مالکیہ کا خیال ہے، اس کو قتل کر دیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4572
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3051
3051. حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس مشرکین کا ایک جاسوس آیا جبکہ آپ سفر میں تھے۔ وہ صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا، پھر اٹھ کر چل دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے ڈھونڈکرقتل کر ڈالو۔“(حضرت سلمہ ؓنے کہا:)میں نے اسے قتل کیا تو آپ نے انھیں اس جاسوس کا سامان بھی دلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3051]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓنے جس شخص کو قتل کیا تھا وہ جنگجو تھا اور امان لیے بغیر ہی چلا آیا تھا۔ اگرچہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ امان لے کر آیا تھا لیکن جب اس نے اپنا کام کر لیا اور جاسوسی پوری کرلی تو جلدی سے اٹھااور تیزی سے دوڑنے لگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ امان لیے بغیر دارالاسلام میں داخل ہوا تھا اس لیے اسے قتل کردیا گیا۔ 2۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جنگ کی جاسوسی کرنے والے کو قتل کردیا جائے۔ یہ جنگ ہوازن کا واقعہ ہے قبل ازیں مال غنیمت کے احکام نازل ہو چکے تھے کہ وہ صرف اللہ کے لیے ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس عام قرآنی حکم کو خاص فرمایا کہ کافر کا ساز و سامان اسے قتل کرنے والے کو ملتا ہے۔ (فتح الباري: 204/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3051