شرح الحديث:
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی بیان کردہ حدیث مراسیلِ صحابہ میں سے ہے اور مراسیلِ کے متعلق محدیثین کا متفقہ اصول ہے کہ یہ احادیث مقبول ہیں۔ تفصیل دیکھیں:
[شرح نخبة الفكر لابن حجر] مزید یہ کہ بذات خود سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے یہ حدیث
(مرسل) فضل بن عباس رضی الله عنہما سے سماعت کی ہے۔ جب کہ صحیح بخاری، کتاب الصیام، باب الصائم یصبح جنباً میں رسول الله کے روزہ کے متعلق بیان کیا گیا ہے، جس کے راوی ابو بکرہ رضی الله عنہ ہیں، وہ بیان فرماتے ہیں۔ کہ میرے باپ عبدالرحمن رضی الله عنہ نے مروان رضی الله عنہ کو بتایا کہ مجھے سیدة عائشہ و ام سلمة رضی الله عنہما نے بیان فرمایا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی ازواج سے مباشرت کے سبب غسل کرتے، پھر روزہ رکھتے، جب کہ انہیں ادراک ہوتا تھا کہ صبح ہو چکی ہے۔ اس واقعہ کے آخر میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ جناب عبدالرحمن رضی الله عنہ جب سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ملے، تو انہیں کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہ رہا تھا اور اگر مجھے مروان نے قسم نہ دی ہوتی، تو میں اس معاملہ کو آپ کے حضور
(قطعاً) پیش نہ کرتا۔ بعدازاں جناب عبدالرحمن رضی الله عنہ نے سیدہ عائشہ و ام سلمہ رضی الله عنہما کی ذکر کردہ حدیث بیان کی تو سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ مجھے تو یہ روایت فضل بن عباس رضی الله عنہ نے بیان کی تھی یعنی
«فَلَا يَصُوْمُ يَوْمَئِذٍ» حالانکہ امہات المومنین رضی الله عنھن اس معاملہ کو
(ہم سے) بہتر جانتی ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام بخاری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: سلف و خلف عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کے بیٹے نے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرنے میں ہمام کی متابعت کی ہے کہ "جو شخص حالت جنابت میں صبح کرتا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اسے روزہ توڑنے کا حکم صادر فرماتے۔ "
امام بخاری رحمة الله علیہ مزید لکھتے ہیں: "گزشتہ روایت جس میں امہات المومنین رضی الله عنھن کے حوالے سے روزہ رکھنے کی صراحت ملتی ہے، وہ روزہ نہ رکھنے والی روایت سے زیادہ پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ "
مذکورہ دو حدیثوں کی بنیاد پر اس مسئلہ کے متعلق علمائے سلف و خلف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ وہ شخص حالت جنابت میں اس دن روزہ نہ رکھے، جیسا کہ حدیث کے
(ظاہری) مفہوم سے واضح ہوتا ہے۔ اور دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ اگر وہ شخص صبح کا وقت پائے، تو غسل کر کے روزہ رکھ سکتا ہے، جیسا که امہات المومنین رضی الله عنھن کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمة الله علیہ کے مذکورہ بالا واقعہ کو بغور دیکھا جائے، تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کی بنیاد پر جو نظریہ قائم کیا تھا
(جو شخص حالت جنابت میں صبح کرے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس دن کا روزہ نہ رکھے) بعد میں اس سے رجوع کر لیا تھا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ان کے سامنے امہات المومنین رضی الله عنھن والی روایت پیش کی گئی، تو انہوں نے فرمایا: " امہات المومنین رضی الله عنھن اس مسئلہ کو ہم سے زیادہ جانتی ہیں، مزید یہ کہ سعید بن مسیب رحمة الله علیہ سے مروی ہے کہ بعد میں سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے اس مسئلہ سے رجوع کر لیا تھا۔ دیکھئے:
[الاعتبار فى الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص: 262] ایک اشکال:
امام بخاری رحمة الله علیہ مذکورہ حدیثوں کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلی روایت اصح یعنی زیادہ صحیح ہے۔ (سیدہ عائشہ و ام سلمہ رضی الله عنہما والی) جب کہ خود امام بخاری رحمة الله علیہ ھمام بن منبہ کی سند سے بے شمار روایات اپنی کتاب میں لائے ہیں، لیکن اس مقام پر ھمام والی روایت کو تعلیقاً ذکر کر کے اس کے الٹ دوسری روایت کو "اسند" کیوں کہہ رہے ہیں۔
ازالہ: حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: "جو بات میری دانست میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمة الله علیہ کا پہلی روایت کو اسند کہنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ سند اور رجحان دونوں حیثیتوں سے قوی معلوم ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ و ام سلمہ رضی الله عنہما کی روایت متعدد طرق سے ایک ہی معنی میں بلکہ تواتر تک پہنچی ہوئی ہے" تبھی اس روایت کے اسند ہونے کے متعلق حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ امام بخاری رحمة الله علیہ کا حدیث عائشہ و ام سلمہ رضی الله عنہما کو ترجیح دینا فقط کثرت طرق اور ایک ہی معنی میں آنے کی وجہ سے تھا نہ کہ ھمام کی روایت میں نقص کی وجہ سے، بلکہ اس طریقہ سے تو ھمام کی سند کی صحت میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
اس حدیث کی حیثیت علماء کی نظر میں یہ ہے کہ اس حدیث کو صحتِ سند کے اعتبار سے تو کوئی شخص بھی رد نہیں کر سکتا، مگر حد افسوس کہ اس مذکورہ حدیث میں بیان کردہ مسئلے کو بڑے بڑے علماء نے قبول نہیں کیا، حالانکہ معقول اور درست رائے سبھی کی یہی ہے کہ "جو شخص حالت جنابت میں صبح پائے وہ غسل کرکے روزہ رکھ سکتا ہے۔ "
اس کے علاوہ امام شافعی رحمة الله علیہ نے بھی مذکورہ دونوں حدیثوں میں سے طریقۂ راجح اختیار کیا ہے، البتہ ان کا طریقۂ ترجیح کثرتِ طرق فی معنی واحد کی وجہ سے نہیں، بلکہ مختلف وجوہات کی بناء پر تھا جن میں بنیادی اور اہم وجہ یہ تھی کہ اس مسئلہ کے متعلق امہات المومنین رضی الله عنھن بخوبی علم رکھنے والی ہیں۔ لہٰذا ان سے مروی حدیث کو قابل ترجیح تصور کیا جائے۔
[الاعتبار، ص: 262] اور بعض اہل علم نے ان مذکورہ دونوں حدیثوں میں ناسخ و منسوخ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر امام ابو سلیمان الخطابی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: "میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی غیر مرجح روایت کے متعلق جو بھی مباحث و اقوال سنے ہیں، ان سب میں بہترین اور نفیس بات یہی ہے کہ اس روایت کو منسوخ قرار دیا جائے۔ "
نیز امام ابن خزیمہ رضی الله عنہ بھی انہی محدیثین میں سے ہیں، جو اس روایت کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔ چناچہ امام صاحب اپنی کتاب "صحیح ابن خزیمہ" میں اپنے مؤقف کی تائید میں اس حدیث کی توثیق اور سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو اس حدیث میں غلط فہمی کا شکار گرداننے والوں پر رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: "اس روایت کا بیان کہ جو شخص حالت جنابت میں صبح پائے وہ روزہ نہ رکھے۔ "
بعض اہل علم اس حدیث کا معنی و مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کا انکار کر بیٹھے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ انہیں یہ وہم بھی لاحق ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو باوجود ایک جلیل القدر اور صحابہ کرام میں بلند مقام رکھنے كے غلط فہمی درپیش آئی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، بلکہ یہ روایت صحیح اور ثابت شدہ ہے، البتہ
(یہ بات الگ ہے کہ) یہ حدیث منسوخ کا درجہ رکھتی ہے۔
علاوہ ازیں بخاری رحمة الله علیہ کے مثل حدیث رقم کرنے کے بعد فرماتے ہیں: سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے یہ حدیث نبی صادق سے سماعت فرمائی ہے۔ اور یہ
(اسی روایت) حدیث میں
(بالکل) درست ہیں اور انہیں کسی قسم کے کوئی واہمے یا غلط فہمی سے دوچار نہیں ہونا پڑا، البتہ ان کی نقل کردہ حدیث منسوخ
(کا درجہ رکھتی) ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمة الله علیہ مذکورہ حدیث کے نسخ پر دلیل دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: الله تبارک و تعالیٰ نے جب امتِ محمدیہ پر ابتداءً روزے فرض کیے، تو اس کا روزہ اس وقت شروع ہو جاتا تھا اور تمام جائز امور یعنی کھانا، پینا اور جماع کرنا وغیرہ اس پر ممنوع ہو جاتے۔
(اس چیز کو اگر زیر نظر رکھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ممکن ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے جو حدیث فضل بن عباس رضی الله عنہ سے نقل کی ہے وہ اسی زمانہ کی ہو۔
البتہ اب وہ تمام امور جو ابتداءً ناجائز تھے: طلوع فجر تک جائز اور حلال ہیں اور جنبی شخص روزہ بھی رکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص شب کے آخری حصہ میں مجامعت کرتا ہے اور اس کے متصل ہی فجر طلوع ہو جاتی ہے، تو اب اس صورت میں اس شخص کو غسل کا وقت تو مل ہی نہیں پایا اور صبح ہوگئی۔ ایسی صورت میں اس کی صبح حالتِ جنابت میں ہوگی (تو اب وہ بلا کراہت) روزہ رکھ سکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ حدیث عائشہ و ام سلمہ رضی الله عنہما یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم جنبی حالت میں صبح پانے کے باوجود روزہ رکھا کرتے تھے، فضل بن عباس رضی الله عنہ کی حدیث کی ناسخ ہے، کیونکہ اس میں آپ صلی الله عیہ وسلم کا فعل بتایا جا رہا ہے۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ فعل اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ جماع کے طلوع فجر تک کی اباحت سے بعد کا ہے۔
اس حدیث کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس صورت پر محمول ہے کہ جو شخص حالتِ جنابت میں ہو اور جاننے کے باوجود سو رہا ہو، حتی کہ صبح ہو جائے، تو اس کے لیے روزہ کی اجازت نہیں، ہاں اگر وہ غیر دانستہ نیند میں پڑا رہا، تو وہ شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔ [الاعتبار، ص: 259]
استدلالات:
ان تمام مذکورہ بالا مباحث و تطبیقات سے ایک تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنبی شخص اگر حالت جنابت میں صبح کر لے، تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔