(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن مطرف ، عن الشعبي ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يبيت جنبا، فياتيه بلال فيؤذنه بالصلاة فيقوم فيغتسل، فانظر إلى تحدر الماء من راسه، ثم يخرج فاسمع صوته في صلاة الفجر"، قال مطرف: فقلت لعامر: افي رمضان؟، قال: رمضان وغيره سواء. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبِيتُ جُنُبًا، فَيَأْتِيهِ بِلَالٌ فَيُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ، فَأَنْظُرُ إِلَى تَحَدُّرِ الْمَاءِ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَأَسْمَعُ صَوْتَهُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ"، قَالَ مُطَرِّفٌ: فَقُلْتُ لِعَامِرٍ: أَفِي رَمَضَانَ؟، قَالَ: رَمَضَانُ وَغَيْرُهُ سَوَاءٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے، میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں نماز فجر میں آپ کی آواز سنتی۔ مطرف کہتے ہیں: میں نے عامر سے پوچھا: کیا ایسا رمضان میں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Prophet (ﷺ) used to spend the night in a state of sexual impurity, then Bilal would come to him and inform him that it is time for prayer. So he would get up and have a bath, and I would see the water dripping from his head, then he would go out and I would hear his voice during Fajr prayer.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1703
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی اذان کے بعد غسل فرماتے تھے یعنی روزے کی حالت میں کچھ وقت جنابت کی حالت میں گزر جا نے میں کو ئی حر ج نہیں (2) حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استا د سے مذکورہ بالا سوال اس لئے کیا کہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ نفلی روزے کی صورت میں شرعی حکم میں نرمی ہے شاید روزے کی صورت میں ایسا نہ ہو امام شا فعی نے وضاحت فرما دی کہ اس مسئلے میں فرض اور نفل روزے میں کوئی فرق نہیں۔
(3) یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ شاید یہ حکم خواب میں ناپا ک ہو جانے کی صورت میں ہے کیونکہ کہ یہ کیفیت انسان کے بس میں نہیں حدیث: 1704 میں یہ صراحت مو جود ہے کہ ہم بستری کی وجہ سے غسل کی حالت پیش آ جائے تب بھی شرعی حکم یہی ہے فجر کی اذان ہو جا نے کے بعد غسل کرلیا جائے تو روزہ درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1703
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 253
´جنبی آدمی غسل سے پہلے سحری کھا سکتا ہے` «. . . 302- مالك عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر الأنصاري عن أبى يونس مولى عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف على الباب: يا رسول الله، إني أصبح جنبا وأنا أريد الصيام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وأنا أصبح جنبا وأنا أريد الصيام فأغتسل وأصوم“ فقال الرجل: يا رسول الله، إنك لست مثلنا، قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”والله إني لأرجو أن أكون أخشاكم لله وأعلمكم بحدوده.“ . . .» ”. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس کھڑے تھے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! میں رات کو جنبی ہو جاتا ہوں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی رات کو جنبی ہوتا ہوں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہوتا ہے تو میں نہاتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں۔“ اس آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے جیسے نہیں ہیں، اللہ نے گناہوں کے اور آپ کے درمیان (نبوت سے) پہلے (بھی) اور بعد میں پردہ ڈالا ہوا ہے یعنی آپ تو گناہوں سے بالکل معصوم ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں امید کرتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 253]
تخریج الحدیث: [وأخرجه ابوداود 3389، من حديث ما لك، ومسلم 1110/79، من حديث عبد الله بن عبدالرحمن الانصاري به ● سقط من الأصل واستدركته من رواية يحي بن يحي] تفقه: ➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے بالکل پاک تھے۔ آپ سے کسی گناہ کا صدور نہ نبوت سے پہلے ہوا ہے اور نہ نبوت کے بعد۔ «صلى الله عليه و آله و سلم وفداه أبى و أمي و روحي» ➋ اگر رات کو کسی شخص پر جنابت با احتلام کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے تو اس پرفوراً نہانا ضروری نہیں ہے بلکہ نہانے کا تعلق نماز کے ساتھ ہے لہٰذا روزہ رکھنے والا پہلے سحری کھالے اور بعد میں نہالے۔ ➌نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہونے کے باوجود ہمارے جیسے نہیں بلکہ خیر البشر اور نور ہدایت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ بھی کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے سردار ہونے کے باوجود شرعی احکام سے مبرا نہیں تھے تو دوسرے انسان اعمال واحکام سےکیونکر بری ہو سکتے ہیں۔ ➎ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 436، 395، البخاري 1925، 1926، ومسلم 1931، 1932، 1109/78]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 302
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 254
´جنبی آدمی غسل سے پہلے سحری کھا سکتا ہے` «. . . 395- مالك عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري عن أبى بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن عائشة وأم سلمة زوجي النبى صلى الله عليه وسلم أنهما قالتا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من جماع غير احتلام فى رمضان، ثم يصوم. . . .» ”. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں احتلام کے بغیر، جماع سے حالت جنابت میں صبح کرتے پھر روزہ رکھتے تھے۔ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 254]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1109/78 و ابوداود 2388 من حديث ما لك به]
تفقه: ➊ اگر کس شخص غسل فرض ہو تو وہ سحری کھانے کے غسل کر لے، اس کے روزے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 302، و ابوداود 3389، ومسلم 1110/79]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 395
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 2389
´رمضان میں جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میں جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں پھر غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھ لیتا ہوں“، اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو ہماری طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر رکھے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے اور فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2389]
فوائد ومسائل: اللہ کی انتہائی خشیت اور اس کے دین کی معرفت کا تقاضا بھرپور عمل اور کامل احتیاط ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ احتیاط کون کر سکتا ہے؟ لہذا اعمال میں آپ ہی کی اقتدا واجب ہے۔ اور آپ ہی امت کے لیے نمونہ ہیں۔ سوائے ان امور کے جن میں آپ کا استثنا ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2389