عبدالرحمٰن بن یزید اور ابوبردہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی بیماری شدید ہو گئی، تو ان کی بیوی ام عبداللہ چلّا چلّا کر رونے لگیں، جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا تو انہوں نے بیوی سے کہا: کیا تم نہیں جانتی کہ میں اس شخص سے بری ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری ہوئے، اور وہ اپنی بیوی سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے، روئے چلائے اور کپڑے پھاڑے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: جیسے جاہلوں کی عادت ہوتی ہے، بلکہ ہندوؤں کی رسم ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کے غم میں سر بلکہ داڑھی مونچھ بھی منڈوا ڈالتے ہیں۔
‘Abdur-Rahman bin Yazid and Abu Burdah said:
“When Abu Musa fell sick, his wife Umm ‘Abdullah started to wail loudly. He woke up and said to her: ‘Do you not know that I am innocent of those whom the Messenger of Allah (ﷺ) declared innocence of?’ And he told her that the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘I am innocent of those who shave their heads, raise their voices and tear their garments (at times of calamity).’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1586
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے تقویٰ کا یہ کمال ہے۔ کہ انھیں سخت بیماری کی حالت میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خیال رہتا تھا۔
(2) گھر میں اگر کوئی غلط کام ہو تو فوراً ٹوک دینا چاہیے۔
(3) جاہلیت میں اظہار غم کےلئے لوگ سر کے بال منڈوایا کرتے تھے۔ آجکل بعض لوگ جو داڑھی منڈوانے کے عادی ہوتے ہیں۔ غم کے موقع پر شیو کرنا بند کردیتے ہیں۔ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ یہ بھی ایک لحاظ سے اہل جاہلیت سے مشابہت ہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ سنت رسول اللہ ﷺ یعنی ڈاڑھی رکھنے کا تعلق غم سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ داڑھی صرف آپﷺ کی سنت ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس لئے اسے ان امور فطرت میں شمار کیا گیا ہے۔ جن کا تمام شریعتوں میں حکم دیا گیا ہے۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 293) اسی طرح اظہار غم کےلئے سیاہ لباس پہننا بھی کفار کی نقل ہے۔ جب کہ دین اسلام میں کفار سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1586
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1862
´میت پر رونا چلانا اور واویلا کرنا منع ہے۔` صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری پر بے ہوشی طاری ہو گئی، لوگ ان پر رونے لگے، تو انہوں نے کہا: میں تم سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ کہہ کر برات کا اظہار کیا تھا کہ جو سر منڈائے کپڑے پھاڑے، واویلا کرے ہم میں سے نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1862]
1862۔ اردو حاشیہ: ➊ بعض حضرات نے سلق کے معنی رخسار پیٹنا بھی کیے ہیں۔ ➋ اگرچہ گھر والے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بے ہوشی پر روئے تھے مگر انہیں خدشہ ہوا کہ یہ میری وفات پر بھی روئیں گے، اس لیے تنبیہ فرمائی ……… رضي اللہ عنہ وأرضاہ………
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1862
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1864
´مصیبت میں سر منڈانا منع ہے۔` عبدالرحمٰن بن یزید اور ابوبردہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (کی بیماری) سخت ہوئی، تو ان کی عورت چلاتی ہوئی آئی۔ (ان کی بیماری میں کچھ) افاقہ ہوا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تجھے نہ بتاؤں کہ میں ان چیزوں سے بری ہوں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری تھے، ان دونوں نے ان کی بیوی سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”میں اس شخص سے بری ہوں جو سر منڈائے، کپڑے پھاڑے اور واویلا کرے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1864]
1864۔ اردو حاشیہ: جن بالوں کو منڈوناجائز ہے، مثلا: سر کے بال، سوگ کے طور پر انہیں مونڈنا بھی ناجائز ہے اور جن بالوں کو مونڈنا ناجائز ہے، مثلا: ڈاڑھی اور ابرو وغیرہ، انہیں سوگ سے مونڈنا تو بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہو گا۔ دراصل شریعت کا منشا یہ ہے کہ انسان حوادث سے متاثر تو ہو مگر اس قدر نہیں کہ انسانی وقار مجروح یا ختم ہو جائے، انسانیت قائم رہنی چاہیے۔ مندرجہ بالا کام انسانی وقار کے خلاف ہیں، لہٰذا منع ہیں، البتہ بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا اور اسی طرح غم کا اظہار کرنا جائز ہے کیونکہ یہ فطری چیزیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر ان فطری چیزوں کا بھی اظہار نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص فطری رحمت سے عاری ہے اور فطرت سے بے نیازی (طبعاً ہو یا تکلفاً) انسانیت کے منافی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1864
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 287
ابو بردہ بن ابی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ ؓ اس قدر شدید بیمار ہوئے کہ ان پر غشی طاری ہوگئی، اور ان کا سر ان کے خاندان کی کسی عورت کی گود میں تھا، تو ان کے خاندان کی ایک عورت چیخنے لگی۔ حضرت ابو موسیٰ (بے ہوشی کی وجہ سے) اس کو کچھ کہہ نہ سکے (منع نہ کر سکے) جب ہوش میں آئے، تو کہنے لگے: میں اس سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ نے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے چلّانے والی، سر منڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:287]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) صَّالِقَةٌ يا سَالِقَةٌ: مصیبت اور رنج کی بنا پر چیخنے، چلانے والی صلق سے ماخوذ ہے، بلند اور سخت آواز۔ (2) الْحَالِقَةُ: مصیبت و رنجم کی بنا پر سر منڈانے والی۔ (3) الشَّاقَّةُ: رنجم و حزن کی بنا پر کپڑے پھاڑنے والی۔ فوائد ومسائل: مصیبت اور رنج وغم کی بنا پر جزع وفزع کرتے ہوئے، چیخنا چلانا، کپڑے پھاڑنا اور سر کے بال منڈوانا جاہلیت کا طور طریقہ ہے، اور شریعت ان غلط رسموں کو جو صبر وشکیب اور اللہ کی مشیت پر رضا کے اظہار کے منافی ہیں ختم کرتی ہے، ان رسوم بد کا ارتکاب دین وشریعت سے دور کی علامت ہے، جس سے ایک مسلمان کوبچنا چاہیے۔