(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا يحيى بن سليم ، عن ابن خثيم ، عن شهر بن حوشب ، عن اسماء بنت يزيد ، قالت: لما توفي ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم بكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له المعزي إما ابو بكر، وإما عمر: انت احق من عظم الله حقه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تدمع العين، ويحزن القلب، ولا نقول ما يسخط الرب، لولا انه وعد صادق وموعود جامع، وان الآخر تابع للاول، لوجدنا عليك يا إبراهيم افضل مما وجدنا، وإنا بك لمحزونون". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ ، قَالَتْ: لَمَّا تُوُفِّيَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمُ بَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ الْمُعَزِّي إِمَّا أَبُو بَكْرٍ، وَإِمَّا عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ مَنْ عَظَّمَ اللَّهُ حَقَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ، لَوْلَا أَنَّهُ وَعْدٌ صَادِقٌ وَمَوْعُودٌ جَامِعٌ، وَأَنَّ الْآخِرَ تَابِعٌ لِلْأَوَّلِ، لَوَجَدْنَا عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَفْضَلَ مِمَّا وَجَدْنَا، وَإِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ".
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے، آپ سے تعزیت کرنے والے نے (وہ یا تو ابوبکر تھے یا عمر رضی اللہ عنہما) کہا: آپ سب سے زیادہ اللہ کے حق کو بڑا جاننے والے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھ روتی ہے، دل غمگین ہوتا ہے، اور ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہو، اور اگر قیامت کا وعدہ سچا نہ ہوتا، اور اس وعدہ میں سب جمع ہونے والے نہ ہوتے، اور بعد میں مرنے والا پہلے مرنے والے کے پیچھے نہ ہوتا، تو اے ابراہیم! ہم اس رنج سے زیادہ تم پر رنج کرتے، ہم تیری جدائی سے رنجیدہ ہیں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسوں کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15772، ومصباح الزجاجة: 572) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1732)»
It was narrated that Asma’ bint Yazid said:
“When Ibrahim, the son of the Messenger of Allah (ﷺ), died, the Messenger of Allah (ﷺ) wept. The one who was consoling him, either Abu Bakr or ‘Umar, said to him: ‘You are indeed the best of those who glorify Allah with what is due to him.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The eye weeps and the heart grieves, but we do not say anything that angers the Lord. Were it not that death is something that inevitably comes to all, and that the latter will surely join the former, then we would have been more than we are, verily we grieve for you.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1589
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی عزیز یا دوست کی وفات پر رونا جائز ہے۔ بشر ط یہ کہ جاہلیت کا انداز اختیار نہ کیاجائے۔
(2) دوسرے افراد کو چاہیے کہ فوت ہونے والے کے اقارب کو مناسب انداز سے تسلی دیں۔ جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔
(3) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ اب اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے یہ ادب کے دائرے میں رہ کر صبر کی تلقین ہے۔
(4) اصل صبر یہ ہے کہ غم کے وقت بھی اپنی زبان اور ہاتھ وغیرہ کو ناجائز امور سے محفوظ رکھا جائے۔ ایسے الفاظ نہ کہے جایئں جن سے اللہ پر ناراضی کا اظہار ہوتا ہو۔
(5) اللہ کے رسول ﷺ نے وفات سے ہونے والے غم کے سلسلے میں ایک اہم اصولی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ یہ کہ موت کا وعدہ سچا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں اگر فوت ہونے والا آج نہ جاتا تو کل چلا جاتا۔ آخر جانا ہی تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ موت سے حاصل ہونے والی جدائی ایک عارضی جدائی ہے۔ اگر ایک فرد ہم سے پہلے فوت ہوکر ہم سے جدا ہوگیا ہے تو پیچھے رہنے والے کو بھی فوت ہوکر وہیں پہنچنا ہے۔ پھر یہ جدائی ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد جدائی نہیں ہوگی۔ اگر ان دو امو ر کی طرف توجہ کی جائے تو موت کا غم یقیناً ہلکا ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1589