والبيان ان الاولى تكون فرضا منفردا، والثانية نافلة في جماعة، ضد قول من زعم ان الصلاة جماعة هي الفريضة لا الصلاة منفردا، والزجر عن ترك الصلاة نافلة خلف الإمام المصلي فريضة، وإن اخر الصلاة عن وقتهاوَالْبَيَانِ أَنَّ الْأُولَى تَكُونُ فَرْضًا مُنْفَرِدًا، وَالثَّانِيَةَ نَافِلَةً فِي جَمَاعَةٍ، ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الصَّلَاةَ جَمَاعَةٌ هِيَ الْفَرِيضَةُ لَا الصَّلَاةُ مُنْفَرِدًا، وَالزَّجْرِ عَنْ تَرْكِ الصَّلَاةِ نَافِلَةً خَلْفَ الْإِمَامِ الْمُصَلِّي فَرِيضَةً، وَإِنْ أَخَّرَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا
جناب ابوالعالیہ ابراء رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ ابن زیاد نے نماز مؤخر کردی، تو میرے پاس حضرت عبداللہ بن صامت تشریف لائے - میں نے اُنہیں کرسی دی تو وہ اُس پر بیٹھ گئے۔ پھرمیں نے اُنہیں ابن زیاد کی کارستانی بیان کی۔ اُنہوں نے اپنے ہونٹ چبائے پھر اپنا ہاتھ میری ران پر مارااور فرمایا، میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح تم نے مجھ سے کیا ہے، تو اُنہوں نے میری ران پر اسی طرح مارا تھا، جیسے میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور فرمایا تھا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سوال کیا تھا، جس طرح تم نے مجھ سے سوال کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ایسے ہی مارا تھا جیسے میں نے تمہاری ران پر مارا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرنا۔ پھر اگر ان حکمرانوں کے ساتھ تم نماز (با جما عت) پا لو تو پڑھ لو اور یہ نہ کہنا کہ بیشک میں تو نماز پڑھ چکا ہوں اس لئے اب میں نہیں پڑھتا۔“ یہ جناب بندار کی حدیث ہے اور جناب یحیٰی بن حکیم کی روایت میں ہے کہ اُنہوں نے اپنے دونوں ہونٹ چبائے۔