والدليل على ان الفرض غسل القدمين لا مسحهما، إذا كانتا باديتين غير مغطيتين بالخف او ما يقوم مقام الخف، لا على ما زعمت الروافض ان الفرض مسح القدمين لا غسلهما، إذ لو كان الماسح على القدمين مؤديا للفرض، لما جاز ان يقال لتارك فضيلة: ويل له، وقال صلى الله عليه وسلم: " ويل للاعقاب من النار "، إذا ترك المتوضئ غسل عقبيهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْفَرْضَ غَسْلُ الْقَدَمَيْنِ لَا مَسْحُهُمَا، إِذَا كَانَتْا بَادِيَتَيْنِ غَيْرَ مُغَطَّيَتَيْنِ بِالْخُفِّ أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَ الْخُفِّ، لَا عَلَى مَا زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ الْفَرْضَ مَسْحُ الْقَدَمَيْنِ لَا غَسْلُهُمَا، إِذْ لَوْ كَانَ الْمَاسِحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ مُؤَدِّيًا لِلْفَرْضِ، لَمَا جَازَ أَنْ يُقَالَ لِتَارِكِ فَضِيلَةٍ: وَيْلٌ لَهُ، وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ "، إِذَا تَرَكَ الْمُتَوَضِّئُ غَسْلَ عَقِبَيْهِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ دونوں قدم جب ننگے ہوں اور موزوں یا جُرابوں وغیرہ سے ڈھکے ہوئے نہ ہوں تو اُنہیں دھونا فرض ہے نہ کہ اُن کا مسح کرنا، رافضیوں کے قول کے برعکس جو یہ کہتے ہیں کہ قدموں کا مسح کرنا فرض ہے، دھونا فرض نہیں، کیونکہ اگر قدموں پرمسح کرنے والا شخص فرض کی ادائیگی کرنے والا ہوتا ہے تو افضلیت کے تارک شخص کو تباہی و بربادی یا جہنّم کی وعید سنانا جائز نہ ہوتا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت فرمایا تھا جب وضو کرنے والوں نے ایڑیاں اچھی طرح نہ دھوئی تھیں۔)
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرمہ سے مدینہ منوّرہ واپس آئے، حتیٰ کہ جب ہم راستے میں پانی (کے ایک مقام یا چشمے وغیرہ) پر تھے تو لوگوں نے عصر کے وقت وضو کرتے ہوئے جلدی کی اور وہ جلدی میں تھے۔ ہم اُن کے پاس پہنچے تو اُن کی ایڑیاں سفید خشک دکھائی دے رہی تھیں۔ اُنہیں پانی نہیں لگا تھا، تو رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے، مکمّل وضو کرو۔“