سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
124. باب فِي الأَسِيرِ يُوثَقُ
124. باب: قیدی کے باندھنے کا بیان۔
Chapter: Regarding Shackling Captives.
حدیث نمبر: 2679
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عيسي بن حماد المصري، وقتيبة، قال قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد، انه سمع ابا هريرة يقول: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له: ثمامة بن اثال، سيد اهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" ماذا عندك يا ثمامة؟، قال: عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان الغد، ثم قال له: ما عندك يا ثمامة؟ فاعاد مثل هذا الكلام فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان بعد الغد فذكر مثل هذا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اطلقوا ثمامة، فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل فيه ثم دخل المسجد فقال: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله" وساق الحديث، قال عيسى: اخبرنا الليث، وقال ذا ذم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عيسي بن حماد المصري، وَقُتَيْبَةُ، قَالَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، قَالَ: عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟ فَأَعَادَ مِثْلَ هَذَا الْكَلَامِ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَذَكَرَ مِثْلَ هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ فِيهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ عِيسَى: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، وَقَالَ ذَا ذِمٍّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی جانب بھیجا وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو گرفتار کر کے لائے، وہ اہل یمامہ کے سردار تھے، ان کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور پوچھا: ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟ کہا: اے محمد! میرے پاس خیر ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک مستحق شخص کو قتل کریں گے، اور اگر احسان کریں گے، تو ایک قدرداں پر احسان کریں گے، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہئے جتنا چاہیں گے دیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ کر واپس آ گئے، یہاں تک کہ جب دوسرا دن ہوا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے؟ تو انہوں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، پھر جب تیسرا دن ہوا تو پھر وہی بات ہوئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ثمامہ کو آزاد کر دو، چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک باغ میں گئے، غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله» پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کیا۔ عیسیٰ کہتے ہیں: مجھ سے لیث نے «ذَاْ دَمٍ» کے بجائے «ذَا ذِمٍّ» (یعنی ایک عزت دار کو قتل کرو گے) روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 76 (462)، والمغازي 70 (4372)، صحیح مسلم/الجھاد 19 (1764)، سنن النسائی/الطھارة 127 (189)، المساجد 20 (713)، (تحفة الأشراف: 13007)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/452) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Hurairah said “ The Messenger of Allah ﷺ sent some horsemen to Najd and they brought a man of the Banu Hanifah called Thumamah bint Uthal who was the chief of the people of Al Yamamah and bound him to one of the pillars of the mosque. The Messenger of Allah ﷺ came out to him and said “What are you expecting, Thumamah?”. He replied “I expect good, Muhammad. If you kill (me), you will kill one whose blood will be avenged, if you show favor, you will show it to one who is grateful and if you want property and ask you will be given as much of it as you wish. The Messenger of Allah ﷺ left him till the following day and asked him ”What are you expecting, Thumamah?” He repeated the same words (in reply). The Messenger of Allah ﷺleft him till the day after the following one and he mentioned the same words. The Messenger of Allah ﷺ then said “Set Thumamah free. ” He went off to some palm trees near the mosque. He took a bath there and entered the mosque and said “I testify that there is no god but Allaah and I testify that Muhammd is His servant and His Messenger. He then narrated the rest of the tradition. The narrator ‘Isa said “Al Laith narrated to us”. He said “a man of respect and reverence. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2673


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (469) صحيح مسلم (1764)

   صحيح البخاري462عبد الرحمن بن صخرأطلقوا ثمامة فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله
   سنن أبي داود2679عبد الرحمن بن صخرأطلقوا ثمامة فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل فيه ثم دخل المسجد فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
   بلوغ المرام197عبد الرحمن بن صخر بعث النبي خيلا فجاءت برجل،‏‏‏‏ فربطوه بسارية من سواري المسجد

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2679 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2679  
فوائد ومسائل:

مصلحت کے تحت کافر کو مسجد میں آنے یا باندھنے کی رخصت ہے۔


رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے حسن عبادات اور حسن عادات نے ایک جنگی قیدی کو بلاجبرواکراہ اسلام کا قیدی بنا لیا۔
اور یہ دلیل ہے کہ اسلام تلوار کے زورسے نہیں پھیلا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2679   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 197  
´بوقت ضرورت مشرک کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: بعث النبي صلى الله عليه وآله وسلم خيلا فجاءت برجل،‏‏‏‏ فربطوه بسارية من سواري المسجد . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سا دستہ کسی طرف روانہ کیا۔ یہ لوگ ایک (مشرک) مرد کو (گرفتار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) لائے اور اس کو مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا (قید کر دیا)۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 197]
لغوی تشریح:
«خَيْلَا» گھڑ سواروں کا دستہ۔
«فَرَبَطُوهُ» انہوں نے اسے باندھ دیا۔
«بِسَارِيَةٍ» اس کی جمع «سَوَارِي» ہے، معنی ستون کے ہیں۔ یہ قیدی ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ تھے۔ گرفتاری کے موقع پر یہ کافر تھے، بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت مشرک کا مسجد میں داخل ہونا اور اسے وہاں قید کر کے رکھنا جائز ہے۔
➋ حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ کافر و مشرک مسجد میں مسلمانوں کے ارکان اسلام میں سے نماز کو ادا کرے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کریں، تلاوت قرآن سنیں، صف بندی سے اتفاق و اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ دیکھیں، امیر و غریب کو ایک ہی صف میں دست بستہ کھڑے دیکھیں اور ان سے متأثر ہوں۔
➌ قید ہو کر آنے والا یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال تھا۔ عمرے کی غرض سے آ رہا تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ مسجد نبوی میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین روز تک ستون سے باندھے رکھا، آخرکار وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 197   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 462  
462. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک گھڑ سوار دستہ نجد کی طرف روانہ کیا۔ وہ بنوحنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر کے لائے جسے ثمامہ بن اُثال ؓ کہا جاتا تھا اور اسے انهوں نے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ثمامہ کو چھوڑ دو۔ چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے باغ میں گیا، وہاں غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں، یعنی وہ مسلمان ہو گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:462]
حدیث حاشیہ:
اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔
یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔
اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔
حضرت ثمامہ ؓ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔
یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔
مگررسول اکرم ﷺ نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 462   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:462  
462. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک گھڑ سوار دستہ نجد کی طرف روانہ کیا۔ وہ بنوحنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر کے لائے جسے ثمامہ بن اُثال ؓ کہا جاتا تھا اور اسے انهوں نے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ثمامہ کو چھوڑ دو۔ چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے باغ میں گیا، وہاں غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں، یعنی وہ مسلمان ہو گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:462]
حدیث حاشیہ:
ثمامہ بن اثال ؓ والی روایت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ محرم 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی زیر سرکردگی تیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر مشتمل ایک دستہ علاقہ نجد کی طرف روانہ فرمایا۔
انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مدینہ طیبہ کی طرف جارہے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ان کا راستہ روک کر سردار اثامہ بن اثال ؓ کوگرفتار کرلیا، پھر انھیں مدینہ منور ہ لایا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیاگیا۔
رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ثمامہ سے پوچھا:
اے ثمامہ! تیرا کیاخیال ہے؟وہ بولا میرا خیال بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان کریں گے تو شکر گزار پر احسان ہوگا اور اگر آپ مال چاہیں تو جو آپ کہیں پیش کردیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ یہ جواب سن کر واپس ہوگئے۔
دوسرے دن پھر یہی سوال وجواب ہوئے۔
تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔
پھر آپ نے حکم دیاکہ ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ اسے رہاکردیاگیا۔
وہ فوراً مسجد کے قریب ایک باغ میں گیا، غسل کیا اور مسجد میں آگیا، پھر کہا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداللہ کے رسول ہیں۔
پھر کہنے لگا:
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ کی قسم! مجھے تمام ر وئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی سے دشمنی نہ تھی اوراب آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
اللہ کی قسم!مجھے آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین بُرا معلوم نہ ہوتاتھا اوراب آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے۔
اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے بُرا کوئی شہر نہ تھا اوراب آپ کاشہر میرے نزدیک سب شہروں سے بڑھ کر پسندیدہ ہے۔
آپ کے سواروں نے جب مجھے گرفتار کیا تو میں عمرے کاارادہ کررہا تھا اب آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟رسول اللہ ﷺ نے اسے مبارک بار دی اور اسے عمرے کا حکم دیا، چنانچہ وہ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ چلا آیا تو کسی نے اس سے کہا کہ تو بے دین ہوگیا ہے؟وہ بولا نہیں، بلکہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لاکر مسلمان ہوگیا ہوں۔
اب تمہارے دین کی طرف رجوع نہیں کروں گا۔
اللہ کی قسم! اب تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا،ہاں!اگررسول اللہ ﷺ اس کی اجازت فرمادیں گے تو الگ بات ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372)
اس تفصیلی روایت سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دونوں جزثابت ہوگئے کہ کسی غیر مسلم کو مسجد میں محبوس کیاجاسکتا ہے اور اسلام لانے سے قبل غسل کرنے مسئلہ بھی ثابت ہوگیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 462   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.