وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، انه قال: شرب عمر بن الخطاب لبنا فاعجبه، فسال الذي سقاه: " من اين هذا اللبن؟" فاخبره انه ورد على ماء قد سماه، فإذا نعم من نعم الصدقة، وهم يسقون فحلبوا لي من البانها فجعلته في سقائي فهو هذا، فادخل عمر بن الخطاب يده فاستقاءه وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ قَالَ: شَرِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَبَنًا فَأَعْجَبَهُ، فَسَأَلَ الَّذِي سَقَاهُ: " مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟" فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ وَرَدَ عَلَى مَاءٍ قَدْ سَمَّاهُ، فَإِذَا نَعَمٌ مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، وَهُمْ يَسْقُونَ فَحَلَبُوا لِي مِنْ أَلْبَانِهَا فَجَعَلْتُهُ فِي سِقَائِي فَهُوَ هَذَا، فَأَدْخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَدَهُ فَاسْتَقَاءَهُ
سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دودھ پیا تو بھلا معلوم ہوا۔ پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟ جو لایا تھا وہ بولا کہ میں ایک پانی پر گیا تھا اور اس کا نام بیان کیا، وہاں پر جانور زکوٰۃ کے پانی پی رہے تھے، لوگوں نے ان کا دودھ نچوڑ کر مجھے دیا، میں نے اپنی مشک میں رکھ لیا، وہ یہی دودھ تھا جو آپ نے پیا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کی۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13286، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4031، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5771، والشافعي فى «الاُم» برقم: 84/2 شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 556، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 31»
قال مالك: الامر عندنا ان كل من منع فريضة من فرائض الله عز وجل، فلم يستطع المسلمون اخذها، كان حقا عليهم جهاده حتى ياخذوها منهقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ كُلَّ مَنْ مَنَعَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَمْ يَسْتَطِعِ الْمُسْلِمُونَ أَخْذَهَا، كَانَ حَقًّا عَلَيْهِمْ جِهَادُهُ حَتَّى يَأْخُذُوهَا مِنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو کوئی اس چیز کو جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے روکے اور مسلمانوں کو لینے نہ دے تو مسلمانوں پر جہاد کرنا اس شخص سے لازم ہے، یہاں تک کہ لے لیں اس حق کو۔