وحدثني، عن مالك، عن زياد بن سعد ، عن ابن شهاب ، انه قال: " لا يؤخذ في صدقة النخل الجعرور، ولا مصران الفارة، ولا عذق ابن حبيق، قال: وهو يعد على صاحب المال ولا يؤخذ منه في الصدقة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يُؤْخَذُ فِي صَدَقَةِ النَّخْلِ الْجُعْرُورُ، وَلَا مُصْرَانُ الْفَارَةِ، وَلَا عَذْقُ ابْنِ حُبَيْقٍ، قَالَ: وَهُوَ يُعَدُّ عَلَى صَاحِبِ الْمَالِ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي الصَّدَقَةِ"
ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہو جاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق نہ لی جائیں گی، اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحبِ مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی، لیکن لی نہ جائیں گی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الشافعي فى «الاُم» برقم: 31/2، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2313، شركة الحروف نمبر: 558، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 34»
قال مالك: وإنما مثل ذلك الغنم تعد على صاحبها بسخالها، والسخل لا يؤخذ منه في الصدقة وقد يكون في الاموال ثمار لا تؤخذ الصدقة منها، من ذلك البردي وما اشبهه لا يؤخذ من ادناه كما لا يؤخذ من خياره، قال: وإنما تؤخذ الصدقة من اوساط المال قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِكَ الْغَنَمُ تُعَدُّ عَلَى صَاحِبِهَا بِسِخَالِهَا، وَالسَّخْلُ لَا يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي الصَّدَقَةِ وَقَدْ يَكُونُ فِي الْأَمْوَالِ ثِمَارٌ لَا تُؤْخَذُ الصَّدَقَةُ مِنْهَا، مِنْ ذَلِكَ الْبُرْدِيُّ وَمَا أَشْبَهَهُ لَا يُؤْخَذُ مِنْ أَدْنَاهُ كَمَا لَا يُؤْخَذُ مِنْ خِيَارِهِ، قَالَ: وَإِنَّمَا تُؤْخَذُ الصَّدَقَةُ مِنْ أَوْسَاطِ الْمَالِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مثال اس کی بکریوں کی ہے کہ بکریوں کے شمار میں بچوں کو بھی گن لیں گے مگر بچے زکوٰۃ میں نہ لیے جائیں گے، اور کبھی پھل ایسے ہوتے ہیں جو زکوٰۃ میں لینے کے قابل نہیں ہوتے بوجہ عمدگی کے، جیسے کھجور میں سے بروئی اور جو مشابہ ہے اس کے، اسی طرح جو پھل خراب ہوں وہ بھی نہیں لیے جائیں گے، بلکہ متوسط قسم کا مال لیا جائے گا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا انه لا يخرص من الثمار إلا النخيل والاعناب، فإن ذلك يخرص حين يبدو صلاحه ويحل بيعه، وذلك ان ثمر النخيل والاعناب يؤكل رطبا وعنبا، فيخرص على اهله للتوسعة على الناس، ولئلا يكون على احد في ذلك ضيق، فيخرص ذلك عليهم ثم يخلى بينهم وبينه ياكلونه كيف شاءوا، ثم يؤدون منه الزكاة على ما خرص عليهم قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا يُخْرَصُ مِنَ الثِّمَارِ إِلَّا النَّخِيلُ وَالْأَعْنَابُ، فَإِنَّ ذَلِكَ يُخْرَصُ حِينَ يَبْدُو صَلَاحُهُ وَيَحِلُّ بَيْعُهُ، وَذَلِكَ أَنَّ ثَمَرَ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ يُؤْكَلُ رُطَبًا وَعِنَبًا، فَيُخْرَصُ عَلَى أَهْلِهِ لِلتَّوْسِعَةِ عَلَى النَّاسِ، وَلِئَلَّا يَكُونَ عَلَى أَحَدٍ فِي ذَلِكَ ضِيقٌ، فَيُخْرَصُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ يَأْكُلُونَهُ كَيْفَ شَاءُوا، ثُمَّ يُؤَدُّونَ مِنْهُ الزَّكَاةَ عَلَى مَا خُرِصَ عَلَيْهِمْ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کسی پھل کا تخمینہ نہ کیا جائے گا مگر کھجور اور انگور کا، اُن کا تخمینہ کیا جائے گا جب وہ نکل آئیں، اور اُن کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے، اور بیع اُن کی درست ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھجور اور انگور پکنے کے بعد کھائے جاتے ہیں تو اس کا اندازہ کر لیں گے تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو اور اس کے مالک کو سپرد کر دیں گے کھائیں اس کو یا بیچیں۔ پھر زکوٰۃ ادا کریں گے اس حساب سے۔
قال مالك: فاما ما لا يؤكل رطبا، وإنما يؤكل بعد حصاده من الحبوب كلها فإنه لا يخرص، وإنما على اهلها فيها إذا حصدوها ودقوها وطيبوها وخلصت حبا، فإنما على اهلها فيها الامانة يؤدون زكاتها إذا بلغ ذلك ما تجب فيه الزكاة، وهذا الامر الذي لا اختلاف فيه عندناقَالَ مَالِك: فَأَمَّا مَا لَا يُؤْكَلُ رَطْبًا، وَإِنَّمَا يُؤْكَلُ بَعْدَ حَصَادِهِ مِنَ الْحُبُوبِ كُلِّهَا فَإِنَّهُ لَا يُخْرَصُ، وَإِنَّمَا عَلَى أَهْلِهَا فِيهَا إِذَا حَصَدُوهَا وَدَقُّوهَا وَطَيَّبُوهَا وَخَلُصَتْ حَبًّا، فَإِنَّمَا عَلَى أَهْلِهَا فِيهَا الْأَمَانَةُ يُؤَدُّونَ زَكَاتَهَا إِذَا بَلَغَ ذَلِكَ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو پھل ایسے ہیں کہ کچے کھائے نہیں جاتے ہیں، اُن کا اندازہ کرنا درست نہیں، بلکہ جب مالک اُن کو کاٹ کاٹ کر صاف کر کے دانے نکالیں، تو جو واجبی طور سے اس کی زکوٰۃ ہو لی جائے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان النخل يخرص على اهلها وثمرها في رءوسها إذا طاب وحل بيعه، ويؤخذ منه صدقته تمرا عند الجداد، فإن اصابت الثمرة جائحة بعد ان تخرص على اهلها وقبل ان تجذ، فاحاطت الجائحة بالثمر كله فليس عليهم صدقة، فإن بقي من الثمر شيء يبلغ خمسة اوسق فصاعدا بصاع النبي صلى الله عليه وسلم، اخذ منهم زكاته وليس عليهم فيما اصابت الجائحة زكاة، وكذلك العمل في الكرم ايضا قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ النَّخْلَ يُخْرَصُ عَلَى أَهْلِهَا وَثَمَرُهَا فِي رُءُوسِهَا إِذَا طَابَ وَحَلَّ بَيْعُهُ، وَيُؤْخَذُ مِنْهُ صَدَقَتُهُ تَمْرًا عِنْدَ الْجِدَادِ، فَإِنْ أَصَابَتِ الثَّمَرَةَ جَائِحَةٌ بَعْدَ أَنْ تُخْرَصَ عَلَى أَهْلِهَا وَقَبْلَ أَنْ تُجَذَّ، فَأَحَاطَتِ الْجَائِحَةُ بِالثَّمَرِ كُلِّهِ فَلَيْسَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةٌ، فَإِنْ بَقِيَ مِنَ الثَّمَرِ شَيْءٌ يَبْلُغُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا بِصَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُخِذَ مِنْهُمْ زَكَاتُهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ فِيمَا أَصَابَتِ الْجَائِحَةُ زَكَاةٌ، وَكَذَلِكَ الْعَمَلُ فِي الْكَرْمِ أَيْضًا
کہا: ہمارے نزدیک اتفاقی مسئلہ یہ ہے کہ کھجور کا تخمینہ کیا جائے، جب وہ درخت میں لگی ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے اور اس کی بیع درست ہو جائے، پھر لی جائے زکوٰۃ اس کی جب کٹنے کا موسم آئے، اگر بعد تخمینے کے اُن پھلوں پر کوئی آفت آئے جس سے تمام پھل تلف ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، البتہ اگر پانچ وسق کے مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاع سے باقی رہ جائیں تو اس مقدار کی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس جس قدر تلف ہو جائے اُن کی زکوٰۃ نہ ہوگی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: انگور کا بھی یہی حکم ہے۔
وإذا كان لرجل قطع اموال متفرقة او اشتراك في اموال متفرقة لا يبلغ مال كل شريك او قطعه ما تجب فيه الزكاة، وكانت إذا جمع بعض ذلك إلى بعض يبلغ ما تجب فيه الزكاة، فإنه يجمعها ويؤدي زكاتهاوَإِذَا كَانَ لِرَجُلٍ قِطَعُ أَمْوَالٍ مُتَفَرِّقَةٌ أَوِ اشْتِرَاكٌ فِي أَمْوَالٍ مُتَفَرِّقَةٍ لَا يَبْلُغُ مَالُ كُلِّ شَرِيكٍ أَوْ قِطَعُهُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَكَانَتْ إِذَا جُمِعَ بَعْضُ ذَلِكَ إِلَى بَعْضٍ يَبْلُغُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يَجْمَعُهَا وَيُؤَدِّي زَكَاتَهَا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی شخص کے متفرق قطعات ہوں یا متفرق اموال میں کئی شریک ہوں اور مال ہر شریک کا یا قطعہ کا اس مقدار کو نہ پہنچا ہو جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اگر ہر شریک کے سب حصے یا تمام قطعات ملا کر نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ واجب نہ ہوگی۔