حدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تحل الصدقة لغني إلا لخمسة: لغاز في سبيل الله، او لعامل عليها، او لغارم، او لرجل اشتراها بماله، او لرجل له جار مسكين فتصدق على المسكين فاهدى المسكين للغني" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ لِغَارِمٍ، أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ لِرَجُلٍ لَهُ جَارٌ مِسْكِينٌ فَتُصُدِّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ فَأَهْدَى الْمِسْكِينُ لِلْغَنِيِّ"
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ درست نہیں مالدار کو مگر پانچ آدمیوں کو درست ہے: پہلے غازی جو جہاد کرتا ہو اللہ کی راہ میں، دوسرے جو عامل ہو زکوٰۃ کا یعنی زکوٰۃ کو وصول اور تحصیل کرتا ہو، تیسرے مدیون یعنی جو قرضدار ہو، چوتھے جو زکوٰۃ کے مال کو خرید لے اپنے مال کے عوض میں، پانچویں جو مسکین ہمسایہ کے پاس سے بطورِ ہدیہ کے آئے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه وأبو داود فى «سننه» برقم: 1635، 1637، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 402، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2368، 2374، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1485، 1486، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1841، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13288، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11440، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7151، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10784، شركة الحروف نمبر: 555، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 29»
قال مالك: الامر عندنا في قسم الصدقات، ان ذلك لا يكون إلا على وجه الاجتهاد من الوالي، فاي الاصناف كانت فيه الحاجة والعدد، اوثر ذلك الصنف بقدر ما يرى الوالي، وعسى ان ينتقل ذلك إلى الصنف الآخر بعد عام او عامين او اعوام، فيؤثر اهل الحاجة والعدد حيثما كان ذلك، وعلى هذا ادركت من ارضى من اهل العلمقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي قَسْمِ الصَّدَقَاتِ، أَنَّ ذَلِكَ لَا يَكُونُ إِلَّا عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْوَالِي، فَأَيُّ الْأَصْنَافِ كَانَتْ فِيهِ الْحَاجَةُ وَالْعَدَدُ، أُوثِرَ ذَلِكَ الصِّنْفُ بِقَدْرِ مَا يَرَى الْوَالِي، وَعَسَى أَنْ يَنْتَقِلَ ذَلِكَ إِلَى الصِّنْفِ الْآخَرِ بَعْدَ عَامٍ أَوْ عَامَيْنِ أَوْ أَعْوَامٍ، فَيُؤْثَرُ أَهْلُ الْحَاجَةِ وَالْعَدَدِ حَيْثُمَا كَانَ ذَلِكَ، وَعَلَى هَذَا أَدْرَكْتُ مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک زکوٰۃ کی تقسیم کا یہ حکم ہے کہ یہ کام حاکم کی رائے پر موقوف ہے، جس قسم کے لوگ زیادہ حاجت رکھتے ہوں یا شمار میں زیادہ ہوں اُن کو دے، جب تک اس کی رائے میں مناسب ہو، پھر سال دو سال یا زیادہ کے بعد دوسری قسم کے لوگوں کو بھی دے سکتا ہے، بہرحال اہلِ حاجت اور عدد کو مقدم رکھے جہاں ہو۔ میں نے اپنے ملک میں اہلِ علم کو اسی پر پایا۔
قال مالك: وليس للعامل على الصدقات فريضة مسماة إلا على قدر ما يرى الإمامقَالَ مَالِك: وَلَيْسَ لِلْعَامِلِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَرِيضَةٌ مُسَمَّاةٌ إِلَّا عَلَى قَدْرِ مَا يَرَى الْإِمَامُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: عامل کا کچھ حصہ مقرر نہیں ہے زکوٰۃ میں، بلکہ حاکم کو اختیار ہے کہ جس قدر مناسب ہو دے۔