قال مالك: انه سمع اهل العلم ينهون ان يصام اليوم الذي يشك فيه من شعبان، إذا نوى به صيام رمضان. ويرون ان على من صامه، على غير رؤية، ثم جاء الثبت انه من رمضان، ان عليه قضاءه. ولا يرون بصيامه تطوعا، باسا، قال مالك: وهذا الامر عندنا والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا.قَالَ مَالِكٌ: أَنَّهُ سَمِعَ أَهْلَ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ أَنْ يُصَامَ الْيَوْمُ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ مِنْ شَعْبَانَ، إِذَا نَوَى بِهِ صِيَامَ رَمَضَانَ. وَيَرَوْنَ أَنَّ عَلَى مَنْ صَامَهُ، عَلَى غَيْرِ رُؤْيَةٍ، ثُمَّ جَاءَ الثَّبَتُ أَنَّهُ مِنْ رَمَضَانَ، أَنَّ عَلَيْهِ قَضَاءَهُ. وَلَا يَرَوْنَ بِصِيَامِهِ تَطَوُّعًا، بَأْسًا، قَالَ مالِكٌ: وَهَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: انہوں نے اہلِ علم سے سنا، وہ منع کرتے تھے شک کے دن روزہ رکھنے سے شعبان میں جب نیت رمضان کی ہو، اور وہ یہ کہتے تھے کہ اگر کسی نے روزہ رکھا شعبان میں شک کے روز بغیر چاند دیکھے ہوئے، پھر کسی معتبر شخص نے گواہی دی کہ وہ دن رمضان کا تھا تو اس پر قضا اس روزہ کی لازم ہے۔ البتہ نفل روزہ رکھنے میں کچھ قباحت نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے اپنے شہر میں اہلِ علم کو یہی کہتے ہوئے پایا۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، وما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رايته في شهر اكثر صياما منه في شعبان" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے: اب افطار نہ کریں گے، اور پھر افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب روزہ نہ رکھیں گے، اور میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ کسی مہینہ کے پورے روزے رکھے ہوں سوا رمضان کے، اور کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 730، 1147، 1159، 1969، 1970، 2013، 3569، 5861، 6464، 6465، 6467، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 738، 1156، 782، 2818، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 49، 1102، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 353، 1578، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2353، 2354، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 391، 392، 393، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2434، 1340، 1341، 1350، 1361، 1368، والترمذي فى «جامعه» برقم: 439، 737، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1515، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 942، 1196، 1710، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 607، 4545، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24707، والحميدي فى «مسنده» برقم: 173، 183، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3864، شركة الحروف نمبر: 635، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 56»