وحدثنا مالك، عن عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، وعن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اشتد الحر فابردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم" . وذكر:" ان النار اشتكت إلى ربها فاذن لها في كل عام بنفسين: نفس في الشتاء، ونفس في الصيف" وَحَدَّثَنَا مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ" . وَذَكَرَ:" أَنَّ النَّارَ اشْتَكَتْ إِلَى رَبِّهَا فَأَذِنَ لَهَا فِي كُلِّ عَامٍ بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تیز گرمی ہو تو تاخیر کرو نماز کی ٹھنڈک تک، اس لیے کہ تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے۔“ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”آگ نے گلہ کیا پروردگار سے تو اذن دیا پروردگار نے اس کو دو سانسوں کا، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 533، 536، 3260، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 615، 617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1504، 1506، 1507، 1510، 7466، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 499، 501، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1499، 1500، وأبو داود فى «سننه» برقم: 402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 157، 2592، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1243، 2887، 2888، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 677، 678، 4319، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2089، 2090، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7251، 7366، والحميدي فى «مسنده» برقم: 971، 972، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5871، والطبراني فى «الصغير» برقم: 384، شركة الحروف نمبر: 25، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 28»
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 27
فائدہ:
ان احادیثِ مبارکہ میں نماز سے مراد نماز ظہر ہے اور نماز کو ٹھنڈا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے عصر تک یا اُس سے بھی مؤخر کر دیا جائے، بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے، چنانچہ جب سورج عین سر کے برابر پہنچتا ہے تو اس کی حرارت و تمازت نقطۂ عروج پر ہوتی ہے، پھر جیسے ہی وہ ڈھلتا ہے تو اس کی گرمی و تپش میں فوراً کمی شروع ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے دودھ دیگچی میں ابلتا ابلتا جب باہر گرنے لگتا ہے تو وہ مکمل طور پر شدید گرم ہو چکا ہوتا ہے اور آپ کے چولہا بند کرنے سے وہ بھی فوراً اُبلنا بند کر دیتا ہے کیونکہ اس کی حرارت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے، اگرچہ وہ اس حالت میں ہم سے پیا نہیں جاتا لیکن وہ لمحہ بہ لمحہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو چکا ہوتا ہے۔
بعض روایات میں ان دونوں سانسوں کے تذکرے کے بعد یہ الفاظ بھی مروی ہیں: «فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِوَاشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ»”تو یہ (سانس) وه سخت ترین گرمی ہے جو تم (گرمیوں میں) محسوس کرتے ہو اور وہ سخت ترین سردی ہے جو تم (سردیوں میں) محسوس کرتے ہو۔“[بخاري: 537، مسلم: 617]
دونوں سانسوں کی کیفیت میں راجح قول یہ ہے کہ جہنم گرمی و سردی میں ایک ایک گرم اور سرد سانس باہر نکالتی ہے، کیونکہ جہنم میں دونوں قسم کا عذاب ہے، سخت گرم بھی اور سخت سرد بھی، دوسرا قول یہ ہے کہ جہنم گرمیوں میں سانس باہر خارج کرتی ہے اور سردیوں میں اندر کھینچتی ہے۔ [والله اعلم]
یاد رہے کہ اللہ تعالی بعض اوقات ایک ہی چیز کی تخلیق اور اظہار کے لیے مختلف قسم کے اسباب کو جمع فرما دیتے ہیں لہذا گرمی کی شدت کے لیے زمین کا سورج کے ذرا قریب ہو جانا اور ادھر جہنم کا گرم سانس خارج کر دینا سبب بنا دیے گئے ہیں جس طرح کہ زمین کی سورج سے دوری اور جہنم کا ٹھنڈا سانس سردی کی شدت کے اسباب ہیں۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 27