وحدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، انه قال: عرس رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بطريق مكة، ووكل بلالا ان يوقظهم للصلاة. فرقد بلال ورقدوا حتى استيقظوا، وقد طلعت عليهم الشمس، فاستيقظ القوم، وقد فزعوا. فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يركبوا حتى يخرجوا من ذلك الوادي، وقال:" إن هذا واد به شيطان" فركبوا حتى خرجوا من ذلك الوادي، ثم امرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان ينزلوا، وان يتوضئوا. وامر بلالا ان ينادي بالصلاة او يقيم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، ثم انصرف إليهم وقد راى من فزعهم، فقال:" يا ايها الناس، إن الله قبض ارواحنا، ولو شاء لردها إلينا في حين غير هذا، فإذا رقد احدكم عن الصلاة او نسيها ثم فزع إليها، فليصلها كما كان يصليها في وقتها". ثم التفت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر، فقال:" إن الشيطان اتى بلالا وهو قائم يصلي فاضجعه، فلم يزل يهدئه كما يهدا الصبي حتى نام". ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا، فاخبر بلال رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل الذي اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر. فقال ابو بكر: اشهد انك رسول الله وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ قَالَ: عَرَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِطَرِيقِ مَكَّةَ، وَوَكَّلَ بِلَالًا أَنْ يُوقِظَهُمْ لِلصَّلَاةِ. فَرَقَدَ بِلَالٌ وَرَقَدُوا حَتَّى اسْتَيْقَظُوا، وَقَدْ طَلَعَتْ عَلَيْهِمُ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ الْقَوْمُ، وَقَدْ فَزِعُوا. فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَرْكَبُوا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْ ذَلِكَ الْوَادِي، وَقَالَ:" إِنَّ هَذَا وَادٍ بِهِ شَيْطَانٌ" فَرَكِبُوا حَتَّى خَرَجُوا مِنْ ذَلِكَ الْوَادِي، ثُمَّ أَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَنْزِلُوا، وَأَنْ يَتَوَضَّئُوا. وَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يُنَادِيَ بِالصَّلَاةِ أَوْ يُقِيمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ وَقَدْ رَأَى مِنْ فَزَعِهِمْ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَنَا، وَلَوْ شَاءَ لَرَدَّهَا إِلَيْنَا فِي حِينٍ غَيْرِ هَذَا، فَإِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ نَسِيَهَا ثُمَّ فَزِعَ إِلَيْهَا، فَلْيُصَلِّهَا كَمَا كَانَ يُصَلِّيهَا فِي وَقْتِهَا". ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ أَتَى بِلَالًا وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَأَضْجَعَهُ، فَلَمْ يَزَلْ يُهَدِّئُهُ كَمَا يُهَدَّأُ الصَّبِيُّ حَتَّى نَامَ". ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا، فَأَخْبَرَ بِلَالٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رات کو اترے راہ میں مکہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مقرر کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اس کام پر کہ جگا دیں ان کو واسطے نماز کے، تو سو گئے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور سوگئے لوگ، پھر جاگے اور سورج نکل آیا تھا اور گھبرائے لوگ (بسبب قضا ہو جانے نماز کے) تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے کا تاکہ نکل جائیں اس وادی سے اور فرمایا: ”اس وادی میں شیطان ہے۔“ پس سوار ہوئے اور نکل گئے اس وادی سے تب حکم کیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اترنے کا اور وضو کرنے کا، اور حکم کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا یا تکبیر کا، پھر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کے ساتھ، پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف اور دیکھا ان کی گھبراہٹ تو فرمایا آپ نے: ”اے لوگوں! بے شک روک رکھا اللہ تعالیٰ نے ہماری جانوں کو، اور اگر چاہتا تو وہ پھیر دیتا ہماری جانوں کو سوا اس وقت کے اور کسی وقت، تو جب سو جائے کوئی تم میں سے نماز سے یا بھول جائے اس کو، پھر گھبرا کے اٹھے نماز کے لیے تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جیسے پڑھتا ہے اس کو وقت پر۔“ پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”شیطان آیا بلال رضی اللہ عنہ کے پاس اور وہ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے تو لٹا دیا ان کو، پھر لگا تھپکنے ان کو جیسے تھپکتے ہیں بچے کو یہاں تک کہ سو رہے وہ۔“ اور پھر بلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو، پس بیان کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اسی طرح جیسے فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال ان کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، تو کہا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے: میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيرہ، و أخرجه التمهيد لابن عبدالبر برقم: 204/5، الاستذكار لابن عبدالبر: 330/1، معرفة السنن والآثار للبيهقي: 87/2، دلائل النبوة للبيهقي: 273/4 274 قال شيخ الالباني: مرسل صحيح فى «المشكاة للالباني» : 657، شركة الحروف نمبر: 23، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 26» شیخ سلیم ہلالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے مرسل صحیح کہا ہے۔ [المشكاة: للالباني: 657]
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 25 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 25
فائدہ:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ کے بتانے سے پہلے ہو بہو صور تحال سنا دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ عرش والی ذات نے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع فرما دیا تھا، اس طرح کے واقعات علامات نبوت میں سے شمار ہوتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسالتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بہت پہلے سے کامل یقین تھا لیکن یہ تازہ معجزہ دیکھ کر انھوں نے پھر ایک مرتبہ رسالت کی گواہی دی تاکہ اُن کے ایمان میں مزید اضافہ، پختگی اور تازگی شامل ہو جائے۔
اس حدیث مبارکہ کے ابتدائی الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ مکہ مکرمہ کے راستے میں پیش آیا، جس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث اور گزشتہ حدیث الگ الگ واقعات کے متعلق ہیں کیونکہ مکہ اور خیبر دونوں مدینہ منورہ سے بالکل الگ الگ سمتوں میں واقع ہیں، چنانچہ مکہ تو مدینہ سے جنوب کی طرف ہے جبکہ خیبر شمال کی جانب ہے۔
تیسرا واقعہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے۔ [بخاري: 344، مسلم: 682] اس روایت کے مطابق پورا لشکر سویا رہا، اس واقعے میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جاگے، عمر رضی اللہ عنہ چوتھے نمبر پر جاگے اور انھوں نے بلند آواز سے تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا، اس واقعے کے الگ ہونے کی اہم دلیل طبرانی کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ اس میں جگانے کی ذمہ داری دو مخبر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ [زرقاني]
چوتھا واقعہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ [بخاري: 595، 7471، مسلم: 681] اس موقع پر صرف سات افراد کی نماز قضا ہوئی جن میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ان میں شامل نہیں تھے۔
بعض قرائن سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری دونوں واقعات ایک ہی سفر میں پیش آئے لیکن سفر کی تعیین منقول نہیں ممکن ہے کہ سفر تبوک ہو۔ [والله اعلم]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 25