«و حيض»
اور حیض کا خون
(نجس ہے)۔
حیض کا خون
➊ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کو لگ جانے والے حیض کے خون کے متعلق فرمایا:
«تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بِالْمَاءِ وَتَنْضَحُهُ وَتُصَلِّي فِيهِ» ”پہلے اسے کھرچو، پھر پانی کے ساتھ مل کر دھو لو، پھر اس میں پانی بہا کر اس میں نماز پڑھ لو۔
“ [بخاري 307] ۱؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک ہی کپڑا ہے اور میں اس میں حائضہ ہو جاتی ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا طَهُرْتِ فَاغْسِلِيهِ ثُمَّ صَلِّي فِيهِ» جب تو پاک ہو جائے تو خون کی جگہ کو دھو لے پر اس میں نماز پڑھ لے۔
“ تو انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! خواہ اس کا نشان ختم نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يَكْفِيكِ غَسْلُ الدَّمِ وَلَا يَضُرُّكِ أَثَرُهُ» ”تمہیں صرف پانی ہی کافی ہو جائے گا اس کا نشان تمہیں کچھ نقصان نہیں دے گا۔
“ [ابوداود 365] ۲؎
➌ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حُكِّيهِ بِضِلْعٍ وَاغْسِلِيهِ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ»
”اسے کسی ٹیڑھی لکڑی کے ساتھ کھرچو پھر اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ دھو ڈالو۔
“ [أبو داود 363] ۳؎
مذکورہ احادیث میں موجود حیض کے خون کو دھونے اور کھرچنے کا حکم اس کے نجس و پلید ہونے کی واضح دلیل ہے۔
[السيل اجرار 45/1]
------------------
۱؎ [بخاري 307، كتاب الحيض: باب غسل دم الحيض، مسلم 291، ابن أبى شيبة 95/1، مؤطا 60/1، ابوداود 360، ترمذي 138، نسائي 155/1، ابن ماجة 629، دارمي 239/1، ابن خزيمة 275، بيهقي 13/1، ابن حبان 1383، أبو عوانة 206/1]
۲؎ [صحيح: إرواء الغليل 190/1، ابوداود 365، كتاب الطهارة: باب المرأة تغسل ثوبها . . .، بيهقي 408/2، أحمد 360/2]
۳؎ [صحيح: صحيح أبو داود 349، أيضا، أبو داود 363، نسائي 154/1، أحمد 355/9، ابن ماجة 628، ابن خزيمة 141/1]
* * * * * * * * * * * * * *
مطلقاً خون کا حکم
حیض کے خون کے علاوہ بقیہ تمام خونوں کے نجس و پلید ہونے کے دلائل واضح و مضبوط نہیں ہیں بلکہ مضطرب، ضعیف ہیں اس لیے اصل
(طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے تاوقتیکہ کوئی واضح دلیل مل جائے۔ نیز اس آیت:
«قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»
[6-الأنعام:145] سے استدلال کرتے ہوئے خون کو نجس قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ لفظ
«رجس» سے مراد صرف خنزیر کا گوشت ہی ہے یا بقیہ تمام اشیاء بھی۔ اس کے برخلاف صحیح و قوی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ بقیہ تمام خون پاک ہیں۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی میں اتر کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا:
” آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟ تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دہانے پر رات گزاری۔ انہوں نے رات کا وقت پہرے کے تقسیم کر لیا، لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اچانک دشمن کے ایک آدمی نے انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا۔ انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا۔ پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع و سجدہ کیا اور اپنی نماز کو مکمل کر لیا۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی
(خون آلود) حالت میں دیکھا تو کہا: جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ تو اس نے کہا: میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے کاٹنا میں نے پسند نہیں کیا۔
[أبو داود 198] ۱؎
➋ امام حسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
«مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ» ”ہمیشہ سے مسلمان اپنے زخموں میں نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
“ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلق بیان کیا ہے۔
[صحيح بخاري قبل الحديث 176] جبکہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح سند کے ساتھ موصول بیان کیا ہے۔
[فتح الباري 281/1]
(البانی رحمہ اللہ) یہ حدیث
(یعنی جس میں صحابی کو تیر لگنے کا قصہ ہے) [أبو داود 198] حکماً مرفوع ہے کیونکہ یہ عادۃ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو، اگر کثیر خون ناقض ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کر دیتے کیونکہ
«تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز» ”ضرورت کے وقت سے وضاحت کو مؤخر کر دینا جائز نہیں۔
“ جیسا کہ علم الاصول میں یہ بات معروف ہے۔ اور اگر بالفرض یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات نہیں رہ سکتی تھی کہ جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں لہٰذا اگر خون ناقض یا نجس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی نازل فرما دیتے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کسی پر مخفی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں جیسا کہ ان کا بعض
(گزشتہ مذکور) آثار معلق بیان کرنا اس کی دلیل ہے۔
[تمام المنة ص /52]
(ابن حزم رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔
[المحلي 255/1]
فقہی اعتبار سے حیض کے خون اور بقیہ خونوں کو برابر قرار دینا دو وجوہ کی بنا پر واضح غلطی ہے۔
➊ اس پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور اصل براءت ذمہ ہے الا کہ کوئی نص مل جائے۔
➋ یہ سنت کے مخالف ہے جیسا کہ گزشتہ انصاری صحابی کی حدیث
(انسان کے خون کے متعلق) بیان کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حیوان کے خون کے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ انہوں نے اونٹ کو نحر کیا تو اس کا خون اور اوجھ کا گوبر انہیں لگ گیا درایں اثناء نماز قائم کر دی گئی۔ انہوں نے بھی نماز پڑھی لیکن وضوء نہیں کیا۔
[ابن أبى شيبة 392/1] ۲؎
(شوکانی رحمہ اللہ) حیض کے خون پر بقیہ خونوں کو قیاس کرنا صحیح نہیں، نیز بقیہ خونوں کے نجس ہونے کے متعلق کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔
[السيل الجرار 40/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) بقیہ تمام خونوں کے نجس ہونے کے دلائل مختلف و مضطرب ہیں۔
[الروضة الندية 82/1]
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(قرطبی رحمہ اللہ) خون کے نجس ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ [تفسير قرطبي 221/2]
اس کے جواب میں شیخ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ بات محل نظر ہے جیسا کہ ابھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی گئی ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية 110/1]
(احناف) خون پیشاب اور شراب کی طرح پلید ہے۔ اگر ایک درہم سے زائد کپڑے کو لگا ہو تو اس میں نماز جائز نہیں لیکن اگر درہم یا اس سے کم مقدار میں لگا ہو تو نماز درست ہے کیونکہ یہ اتنی قلیل مقدار ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہے۔ [عمدة القاري 903/1]
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایات سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ ضعیف ہیں۔
[تحفة الأحوذي 447/1]
(احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ) اگر مقدار درہم سے زائد خون بھی کپڑے کو لگا ہو تب بھی نماز کو نہیں دہرایا جائے گا۔
(کیونکہ یہ نجس نہیں ہے) جیسا کہ گزشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔
[تحفة الأحوذي 447/1]
(راجح) امام احمد رحمہ اللہ کا موقف راجح ہے کیونکہ گزشتہ صریح دلائل اسی کے متقاضی ہیں۔
۱؎ [صحيح، صحيح أبو داود 193، كتاب الطهارة: باب الوضوء من الدم، أبو داود 198، احمد 343/3، دارقطني 322/1، ابن خزيمة 36، حاكم 1571، بيهقي 140/1]
۲؎ [صحيح: تمام المنه ص /52، عبد الرزاق 125/1، ابن أبى شيبة 392/1، طبراني كبير 284/9، الجعديات للبغوي 887/2]
* * * * * * * * * * * * * *