321 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا هشام بن عروة انه سمع امراته فاطمة بنت المنذر تحدث عن جدتها اسماء قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «المتشبع بما لم ينل كلابس ثوبي زور» 321 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ امْرَأَتَهُ فَاطِمَةَ بِنْتَ الْمُنْذِرِ تُحَدِّثُ عَنْ جَدَّتِهَا أَسْمَاءَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يَنَلْ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ»
321- فاطمہ بنت منذر اپنی دادی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا یہ بیان نقل کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ”آدمی کے پاس جو کچھ نہ ہو، اسے اپنے پاس موجود ظاہر کرنے والا اسی طرح ہے، جس طرح اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى "النكاح" برقم: 5219، ومسلم فى «اللباس وزينة» برقم: 2129، 2130،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5738، 5739، والنسائي في «الكبرى» ، برقم: 8871، وأبو داود في «سننه» برقم: 4997، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 25232»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:321
فائدہ: ۔ اس حدیث میں جھوٹ کی ایک قسم کا بیان ہے کہ انسان ظاہری اعتبار سے وہ ظاہر کرے جو حقیقت میں اس کے پاس نہ ہو، یہ جھوٹ ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔ یہ جھوٹ کی عام قسم ہے، اللہ تعالیٰ ٰ اس سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 321
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4997
´ایسی چیزوں کے پاس میں ہونے کا بیان جو آدمی کے پاس نہ ہو جھوٹ کا لبادہ اوڑھنا ہے۔` اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میری ایک پڑوسن یعنی سوکن ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا اگر میں اسے جلانے کے لیے کہوں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ یہ چیزیں دی ہیں جو اس نے نہیں دی ہیں، آپ نے فرمایا: ”جلانے کے لیے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لیے ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4997]
فوائد ومسائل: کسی مسلمان کو دھوکا دینا یا مانگے تانگے کی چیز پر اترنا کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ اسی طرح سوکنوں کا آپس میں ایسی کیفیت پیدا کرنا کہ دوسری کڑھنے لگے جائز نہیں۔ یا کوئی اپنے آپ کو دکھلاوے کے طور پر زاہد ظاہرکرے، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4997
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5219
5219. سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے کیا مجھے گناہ تو نہیں ہوگا اگر میں اپنے خاوند کی دی ہوئی چیز کو خوب بڑھا چڑھا کر ظاہر کروں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو نہ دیا جائے اس کا خوب بڑھا کر اظہار کرنے والا ایسا ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5219]
حدیث حاشیہ: اور لوگوں میں یہ ظاہر کرے کہ یہ کپڑے میرے ہیں، ایسا شیخی مارنے والا آخر میں ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ گویا آپ نے سوکن کے سامنے بھی غلط بیانی کی اجازت نہیں دی کمال تقویٰ یہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5219
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5219
5219. سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے کیا مجھے گناہ تو نہیں ہوگا اگر میں اپنے خاوند کی دی ہوئی چیز کو خوب بڑھا چڑھا کر ظاہر کروں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو نہ دیا جائے اس کا خوب بڑھا کر اظہار کرنے والا ایسا ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5219]
حدیث حاشیہ: (1) متشبع کے معنی ہیں: سیرابی کو ظاہر کرنا، حالانکہ وہ سیر شدہ نہیں ہے۔ اسے کپڑوں سے تشبیہ دی ہے کیونکہ سیرابی یا کپڑے دونوں انسان کو چھپا لیتے ہیں، ایک باطنی طور پر دوسرا ظاہری لحاظ سے۔ (2) بعض حضرات نے دو جھوٹے کپڑوں کے یہ معنی کیے ہیں کہ ایک جھوٹا آدمی، جھوٹی گواہی دینے کے لیے شریف آدمی کی چادر اور تہبند پہن لے تا کہ جھوٹے آدمی کی شرافت ظاہر ہو۔ اس طرح بعض عورتیں اپنی قمیص کے نیچے دوسرے رنگ والا باڈر لگا لیتی ہیں تاکہ وہ دو قمیص ظاہر ہوں۔ (3) عورت کی طرف سے یہ مذموم حرکت ہے کہ وہ اپنی سوکن کا دل جلانے کے لیے کہے کہ خاوند نے مجھے یہ کچھ دیا ہے، حالانکہ اس نے اسے کچھ نہ دیا ہو۔ یہ عورت اس جھوٹے شخص کی طرح ہے جو ریاکاری کے طور پر زاہدوں جیسے کپڑے پہن لیتا ہے، حالانکہ وہ زاہد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 394/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5219