325 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الوليد بن كثير، عن ابن تدرس، عن اسماء بنت ابي بكر قالت: لما نزلت ﴿ تبت يدا ابي لهب﴾ اقبلت العوراء ام جميل بنت حرب ولها ولولة وفي يدها فهر وهي تقول: مذمم ابينا، ودينه قلينا، وامره عصينا، ورسول الله صلي الله عليه وسلم جالس في المسجد ثم قرا قرآنا ومعه ابو بكر فلما رآها ابو بكر قال يا رسول الله قد اقبلت وانا اخاف ان تراك فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «إنها لن تراني» وقرا قرآنا اعتصم به، كما قال وقرا ﴿ وإذا قرات القرآن جعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالآخرة حجابا مستورا﴾ فاقبلت حتي وقفت علي ابي بكر ولم تر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت: يا ابا بكر إني اخبرت ان صاحبك هجاني فقال: لا ورب هذا البيت ما هجاك قال: فولت وهي تقول: قد علمت قريش اني بنت سيدها قال فقال الوليد في حديثه او قال غيره: تعثرت ام جميل وهي تطوف بالبيت في مرطها فقالت: تعس مذمم فقالت ام حكيم ابنة عبد المطلب: إني لحصان فما اكلم، وثقاف فما اعلم، فكلتانا من بني العم قريش بعد اعلم325 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ ابْنِ تَدْرُسَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ﴾ أَقْبَلَتِ الْعَوْرَاءُ أُمُّ جَمِيلٍ بِنْتُ حَرْبٍ وَلَهَا وَلْوَلَةٌ وَفِي يَدِهَا فِهْرٌ وَهِيَ تَقُولُ: مُذَمَّمٌ أَبَيْنَا، وَدِينَهُ قَلَيْنَا، وَأَمْرَهُ عَصَيْنَا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَرَأَ قُرْآنًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ فَلَمَّا رَآهَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَقْبَلَتْ وَأَنَا أَخَافُ أَنْ تَرَاكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهَا لَنْ تَرَانِي» وَقَرَأَ قُرْآنًا اعْتَصَمَ بِهِ، كَمَا قَالَ وَقَرَأَ ﴿ وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا﴾ فَأَقْبَلَتْ حَتَّي وَقَفَتْ عَلَي أَبِي بَكْرٍ وَلَمْ تَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ صَاحِبَكَ هَجَانِي فَقَالَ: لَا وَرَبِّ هَذَا الْبَيْتِ مَا هَجَاكِ قَالَ: فَوَلَّتْ وَهِيَ تَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ قُرَيْشٌ أَنِّي بِنْتُ سَيِّدِهَا قَالَ فَقَالَ الْوَلِيدُ فِي حَدِيثِهِ أَوْ قَالَ غَيْرُهُ: تَعَثَّرَتْ أُمُّ جَمِيلٍ وَهِيَ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ: تَعِسٌ مُذَمَّمٌ فَقَالَتْ أُمُّ حَكِيمِ ابْنَةُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: إِنِّي لَحَصَانٌ فَمَا أُكَلَّمُ، وَثَقَافٌ فَمَا أُعَلَّمُ، فَكِلْتَانَا مِنْ بَنِي الْعَمِّ قُرَيْشٍ بَعْدُ أَعْلَمُ
325- سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: «تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ»”ابولہب کے دونوں ہاتھ برباد ہوجائیں۔“(111-المسد:1) تو ام جمیل بنت حرب (جو ابوجہل کی بیوی تھی) بڑے غصے میں آئی اس نے ہاتھ میں مٹھی بھر پٹھر پکڑے ہوئے تھے اور یہ کہہ رہی تھی: وہ قابل مذمت میں، جن کا ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے دین کو ہم نے چھوڑ دیا ہے اور ان کے معاملے کی ہم نے نافرمانی کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت کی آپ صلی اللہ علی وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اس عورت کو دیکھا تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ عورت آرہی ہے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لے گی (اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرے گی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ مجھے نہیں دیکھ سکے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھنے لگے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مضبوطی حاصل کررہے تھے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا» ”اور جب تم قرآن پڑھو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، ایک مستور پردہ ڈال دیں گے۔“(17-الإسراء:45) وہ عورت آئی وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ٹھہر گئی اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہیں آئے، وہ بولی: اے ابوبکر! مجھے پتہ چلا ہے تمہارے آقا نے ہماری ہجو بیان کی ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی نہیں! اس گھر کے پروردگار کی قسم! انہوں نے تمہاری ہجو بیان نہیں کی ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو وہ عورت مڑ گئی، جاتی ہوئی وہ کہہ رہی تھی: قریش یہ بات جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں۔ یہاں ولید نامی راوی نے اپنی روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: یا شاید دوسرے کسی راوی نے نقل کئے ہیں: ”تو ام جمیل غصے میں تھی وہ اپنی چادر اوڑھ کر بیت اللہ کا طواف کررہی تھی، اس نے یہ کہا وہ شخص برباد ہوجائے جس کی مذمت کی گئی ہے“۔ تو جناب عبدالمطلب کی صاحبزادی ام حکیم نے کہا: ”میں پاکدامن ہوں مجھ پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ میں سمجھدار ہوں، مجھے تعلیم نہیں دی جاسکتی ہم دونوں خواتین چچا زاد ہیں اور قریش اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 3396، وقال الحاكم: «هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه». ووافقه الذهبي، وأورده ابن حجر في «المطالب العالية» ، برقم: 3788 برقم: 3788»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:325
فائدہ: ابولہب کا نام عبد العزیٰ بن عبدالمطلب تھا، یہ واحد کافر ہے جس کا قرآن کریم میں نام لے کر مذمت بیان کی گئی ہے۔ سورہ لہب کا شان نزول اس طرح سے ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سورہ شعراء کی آیت «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ» [26-الشعراء:214](اے نبی! اپنے سب سے قریبی خاندان والوں کو ڈرا) اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑھ گئے اور آواز دی، اے بنی فہر! اے بنی عدی! اور قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے کر پکارا، یہاں تک کہ وہ جمع ہو گئے، اگر کوئی آدمی خود نہ آسکا تو اس نے اپنی جگہ پر کسی اور کو بھیج دیا تا کہ دیکھے کہ کیا بات ہے۔ ابولہب اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ، اگر میں تمھیں اطلاع دوں کہ وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے آپ س سے سچ کے علاوہ بھی کوئی اور تجربہ نہیں کیا، (یعنی ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پایا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر میں تمھیں ایک سخت عذاب کے آنے سے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب کہنے لگا: سارا دن تیرے لیے ہلاکت ہو، تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا ہے؟ تو اس موقع پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (صحیح البخاری: 4770)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 325