(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال عروة:" سالت عائشة رضي الله عنها، فقلت لها: ارايت قول الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 فوالله ما على احد جناح ان لا يطوف بالصفا والمروة، قالت: بئس ما قلت يا ابن اختي، إن هذه لو كانت كما اولتها عليه كانت لا جناح عليه ان لا يتطوف بهما، ولكنها انزلت في الانصار، كانوا قبل ان يسلموا يهلون لمناة الطاغية التي كانوا يعبدونها عند المشلل، فكان من اهل يتحرج ان يطوف بالصفا والمروة، فلما اسلموا سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، قالوا: يا رسول الله، إنا كنا نتحرج ان نطوف بين الصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قالت عائشة رضي الله عنها: وقد سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الطواف بينهما، فليس لاحد ان يترك الطواف بينهما، ثم اخبرت ابا بكر بن عبد الرحمن، فقال: إن هذا لعلم ما كنت سمعته، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يذكرون ان الناس إلا من ذكرت عائشة ممن كان يهل بمناة كانوا يطوفون كلهم بالصفا والمروة، فلما ذكر الله تعالى الطواف بالبيت ولم يذكر الصفا والمروة في القرآن، قالوا: يا رسول الله، كنا نطوف بالصفا والمروة وإن الله انزل الطواف بالبيت، فلم يذكر الصفا، فهل علينا من حرج ان نطوف بالصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قال ابو بكر: فاسمع هذه الآية نزلت في الفريقين كليهما في الذين كانوا يتحرجون ان يطوفوا بالجاهلية بالصفا والمروة والذين يطوفون، ثم تحرجوا ان يطوفوا بهما في الإسلام من اجل ان الله تعالى امر بالطواف بالبيت ولم يذكر الصفا، حتى ذكر ذلك بعد ما ذكر الطواف بالبيت".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال عُرْوَةُ:" سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ أَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَذْكُرُونَ أَنَّ النَّاسَ إِلَّا مَنْ ذَكَرَتْ عَائِشَةُ مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ بِمَنَاةَ كَانُوا يَطُوفُونَ كُلُّهُمْ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَطُوفُ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، فَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، فَهَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَسْمَعُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي الْفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا فِي الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْجَاهِلِيَّةِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَالَّذِينَ يَطُوفُونَ، ثُمَّ تَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بِهِمَا فِي الْإِسْلَامِ مِنْ أَجْلِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا ذَكَرَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (جو سورۃ البقرہ میں ہے کہ)”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں“۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا“ ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لیے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب (زمانہ جاہلیت میں) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تو یہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سوا جن کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور جب اللہ نے قرآن شریف میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر فرمایا اور صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو وہ لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ! ہم تو جاہلیت کے زمانہ میں صفا اور مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہو گا؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ ”صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا و مروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرما دیا۔
Narrated `Urwa: I asked `Aisha : "How do you interpret the statement of Allah,. : Verily! (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah, and whoever performs the Hajj to the Ka`ba or performs `Umra, it is not harmful for him to perform Tawaf between them (Safa and Marwa.) (2.158). By Allah! (it is evident from this revelation) there is no harm if one does not perform Tawaf between Safa and Marwa." `Aisha said, "O, my nephew! Your interpretation is not true. Had this interpretation of yours been correct, the statement of Allah should have been, 'It is not harmful for him if he does not perform Tawaf between them.' But in fact, this divine inspiration was revealed concerning the Ansar who used to assume lhram for worship ping an idol called "Manat" which they used to worship at a place called Al-Mushallal before they embraced Islam, and whoever assumed Ihram (for the idol), would consider it not right to perform Tawaf between Safa and Marwa. When they embraced Islam, they asked Allah's Apostle (p.b.u.h) regarding it, saying, "O Allah's Apostle! We used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa." So Allah revealed: 'Verily; (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah.' " Aisha added, "Surely, Allah's Apostle set the tradition of Tawaf between Safa and Marwa, so nobody is allowed to omit the Tawaf between them." Later on I (`Urwa) told Abu Bakr bin `Abdur-Rahman (of `Aisha's narration) and he said, 'I have not heard of such information, but I heard learned men saying that all the people, except those whom `Aisha mentioned and who used to assume lhram for the sake of Manat, used to perform Tawaf between Safa and Marwa. When Allah referred to the Tawaf of the Ka`ba and did not mention Safa and Marwa in the Qur'an, the people asked, 'O Allah's Apostle! We used to perform Tawaf between Safa and Marwa and Allah has revealed (the verses concerning) Tawaf of the Ka`ba and has not mentioned Safa and Marwa. Is there any harm if we perform Tawaf between Safa and Marwa?' So Allah revealed: "Verily As-Safa and Al- Marwa are among the symbols of Allah." Abu Bakr said, "It seems that this verse was revealed concerning the two groups, those who used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa in the Pre- Islamic Period of ignorance and those who used to perform the Tawaf then, and after embracing Islam they refrained from the Tawaf between them as Allah had enjoined Tawaf of the Ka`ba and did not mention Tawaf (of Safa and Marwa) till later after mentioning the Tawaf of the Ka`ba.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 706
طاف بالبيت وبين الصفا والمروة لم يحل وكان معه الهدي فطاف من كان معه من نسائه وأصحابه وحل منهم من لم يكن معه الهدي حاضت هي فنسكنا مناسكنا من حجنا لما كان ليلة الحصبة ليلة النفر قالت يا رسول الله كل أصحابك يرجع بحج وعمرة
طاف رسول الله وطاف المسلمون فكانت سنة وإنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فلما كان الإسلام سألنا النبي عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر
طاف رسول الله وطاف المسلمون إنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فأنزل الله تبارك و فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1643
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عائشہ ؓ اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن ؓ کے کلام میں کچھ فرق ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اس آیت کا نزول انصار کے ایک مخصوص گروہ کے متعلق فرماتی ہیں جبکہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اس سے عموم مراد لیتے ہیں۔ شاید حضرت عائشہ ؓ نے دونوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جب ایک کے ذکر سے مقصود حاصل ہو گیا تو دوسرے فریق کا ذکر انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔ (2) خلاصہ یہ ہے کہ انصار، منات سے احرام باندھ کر صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے اور دوسرے اہل عرب صفا اور مروہ کا طواف کرتے تھے، اب جب اسلام آیا تو فریقین نے اس رسم جاہلیت اور عادت مشرکین کو گناہ خیال کیا تو ان سے کہا گیا کہ طواف کرنے میں گناہ نہیں۔ اس میں وجوب و اباحت سے بحث نہیں ہے کیونکہ وجوب تو پہلے ثابت ہو چکا ہے۔ بہرحال صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا واجب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد گرامی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان سعی کو مشروع قرار دیا ہے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اسے چھوڑ دے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کا وجوب حضرت عائشہ ؓ کے ان الفاظ سے ہے جو صحیح مسلم میں ہیں کہ اللہ کی قسم! اس شخص کا حج اور عمرہ نامکمل ہے جو صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3079 (1277) اس کے واجب ہونے پر زیادہ قوی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے حج کا طریقہ سیکھو۔ “ اور آپ نے صفا اور مروہ کی سعی کی ہے جو اس امر کے تحت ہے، اس لیے اس امر کے تحت جملہ افعال و اعمال واجب ہوں گے۔ (فتح الباري: 629/3) واللہ أعلم۔ بہرحال جمہور اہل علم کے نزدیک صفا اور مروہ کی سعی حج کے ارکان سے ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1643
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2931
´سواری پر خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر کعبہ کے گرد طواف کیا، آپ اپنی خمدار چھڑی سے حجر اسود کا استلام (چھونا) کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2931]
اردو حاشہ: (1) افضل تو یہی ہے کہ طواف پیدل کیا جائے۔ عذر کی صورت میں لوگ ویل چیئر پر بھی طواف کر لیتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، نیز کسی ماکول اللحم جانور جیسے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ پر طواف کی ضرورت ہو تو جائز ہے، لیکن فی زمانہ اس قسم کے جانوروں پر بیت اللہ کا طواف معقول ہے نہ عمداً ممکن ہی۔ ہاں کسی دور میں اس قسم کی صورت ممکن ہو جائے تو شرعاً اس کے جواز میں کوئی اشکال نہیں، نیز رسول اللہﷺ کے لیے اس کی تخصیص کا دعویٰ درست نہیں۔ کیونکہ آپﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کو بھی اونٹ پر طواف کی اجازت دی تھی جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں گزرا ہے۔ واللہ أعلم (2)”خم دار چھڑی سے چھوتے تھے۔“ اصل تو یہ ہے کہ حجر اسود کو ہونٹ لگائے جائیں۔ یہ ممکن نہ ہو تو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو ہونٹوں پر رکھ لیا جائے۔ اگر ہاتھ لگانا بھی ممکن نہ ہو تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز جو پاک اور صاف ہو، حجر اسود پر لگائی جائے اور اسے چوما جائے، ورنہ صرف اشارہ کیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2931
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2970
´صفا و مروہ کا بیان۔` عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آیت کریمہ: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» پڑھی اور کہا: میں صفا و مروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۱؎، تو انہوں نے کہا: تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2970]
اردو حاشہ: (1) حضرت عروہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا کہ سعی کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور یہ کوئی ضروری چیز نہیں لیکن شاید وہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے ابتدائی الفاظ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾(البقرة: 2: 158) سے غافل رہے کیونکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ شعائر ہیں تو ان سے روگردانی کیسے ممکن ہے؟ حضرت عائشہؓ جو انتہائی صاحب بصیرت خاتون تھیں اور رسول اللہﷺ سے براہ راست فیض یافتہ تھیں، اس اہم نکتے سے کیسے غافل ہو سکتی تھیں، نیز کسی بھی آیت کا مفہوم رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے۔ جو کام رسول اللہﷺ نے تمام عمروں اور حج میں پابندی سے کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ہر عمرہ وحج میں اسے پابندی سے کیا، وہ غیر ضروری کیسے ہو سکتاہے؟ باقی رہا ﴿لَا جُنَاحَ﴾”کوئی حرج نہیں“ کا لفظ تو یہ دراصل ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے جو صفا اور مروہ کے طواف کو کافروں کے رسم ورواج پر محمل کرتے تھے کیونکہ ان دونوں پر انھوں نے بت رکھے ہوئے تھے لیکن کسی کی غلطی سے اصل حقیقت تو متروک نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ بتوں سے پاک کر کے ان کا طواف کیا جائے کیونکہ ان کا طواف قدیم شرعی حکم ہے۔ (2)”یہ سنت ہے“ یہاں سنت فرض کے مقابلے میں نہیں کہ اس کا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسی مفہوم کا تو حضرت عائشہؓ رد فرما رہی ہیں، بلکہ یہاں سنت سے مراد نبیﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ فرض، سنت، واجب وغیرہ کے موجودہ مفہوم بعد کی اصطلاحات ہیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ نبیﷺ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما رہے تھے: [اسعوا فإنَّ اللَّهَ كتبَ عليْكمُ السَّعيَ ](مسند احمد: 6/ 421)”تم سعی کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے۔“ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرے کا رکن ٹھہرایا ہے۔ جس سے رہ جائے، وہ دوبارہ حج و عمرہ کرے، البتہ احناف اسے واجب قرار دیتے ہیں جسے قصداً تو نہیں چھوڑا جا سکتا اگر بھولے سے یا ناواقفیت سے رہ جائے، پھر قضا ممکن ہو تو قضا دے ورنہ ایک جانور قربان کرے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ سعی بین الصفا والمروہ حج کا ایسا رکن ہے کہ اگر وہ رہ جائے تو اس کی تلافی ایک دم (جانور قربان کرنے) سے نہیں ہوگی، بلکہ اسے حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فقه السنة، للسید سابق: 2/ 264- 267)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2970
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2965
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2965]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔
2؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: 158)
3؎: خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت ”اِساف“ نام کا تھا، اور مروہ پر ”نائلہ“ نام کا، اس پر اللہ نے فرمایا: ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے، ارشاد نبوی ہے (اسعَوا فَإِنَّ اللہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْی)(احمد والحاکم بسند حسن)(یعنی: سعی کرو، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2965
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:221
فائدہ: حدیث سے ثابت ہوا کہ صفا و مروہ کا طواف حج اور عمرہ کے ارکان میں سے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفا و مروہ کی سعی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے صفا و مروہ کے درمیان بت رکھا ہوا تھا اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے صفا و مروہ کو بتوں کی نشانی سمجھ کر ان کے طواف کو گناہ سمجھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے صفا و مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا، نیز دیکھیں، صحيح البخاری: 4496۔ نیز اہل علم کا اختلاف ہو جانا کوئی بری بات نہیں ہے، ہاں اختلاف کی خاطر کوئی فتنہ برپا کر دینا بری بات ہے۔ مسند أحمد (421/6، حدیث: 27435) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اسـعـوا، ان الله كـتـب عـلـيـكـم السعى» ”سعی کرو، یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کر دی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 221
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3081
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میرے نزدیک اگر کوئی صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے، تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر میں ان کے درمیان طواف نہ کروں تو کوئی پرواہ نہیں ہو گی، انہوں نے فرمایا، تم نے بہت بری بات کہی ہے، اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طواف کیا، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) مسلمانوں نے ان کا طواف کیا، (اس لیے یہ) مسلمانوں کا طریقہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3081]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں آیت کے نزول کا ایک اور پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سلسلہ میں پہلے چونکہ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرنے کی تصریح نازل نہیں ہوئی تھی اس لیے بعض لوگوں نے خیال کیا، اگرسعی نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تو فرمایا: (یہ تو شعائر اللہ، دین کے امتیازی نشانات اورعلامات میں سے ہیں) ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ شعائر دین وشریعت کے وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی معنوی حقیقت کا شعور پیدا کرنے کے لیے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1762
1762. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1762]
حدیث حاشیہ: عقریٰ کے لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا ترجمہ سر منڈی ہے، یہ الفاظ آپ ﷺ نے محبت میں استعمال فرمائے، معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر ایسے لفظوں میں خطاب کرنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1762
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1762
1762. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1762]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سے طواف وداع ساقط ہے بشرطیکہ اس نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ”اب ہمیں اس کی وجہ سے رکنا پڑے گا۔ “ جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا: ”رخت سفر باندھو، اب ہمیں یہاں رکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے وہ طواف کر لیا ہے جو حج کا رکن ہے۔ “(2) جریر کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی حدیث: 1561 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1762