7. باب: اگر کافر مسلمانوں سے دغا کریں تو ان کو معافی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
(7) Chapter. If Al-Mushrikun (polytheists, pagans, idolaters, and disblelievers in Oneness of Allah and in His Messenger Muhammad (p.b.u.h)) prove treacherous to the Muslims, may they be forgiven?
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لما فتحت خيبر اهديت للنبي صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اجمعوا إلي من كان ها هنا من يهود فجمعوا له، فقال: إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه، فقالوا: نعم، قال: لهم النبي صلى الله عليه وسلم من ابوكم، قالوا: فلان، فقال: كذبتم بل ابوكم فلان، قالوا: صدقت، قال: فهل انتم صادقي عن شيء إن سالت عنه؟، فقالوا: نعم يا ابا القاسم وإن كذبنا عرفت كذبنا كما عرفته في ابينا، فقال لهم: من اهل النار، قالوا: نكون فيها يسيرا ثم تخلفونا فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اخسئوا فيها والله لا نخلفكم فيها ابدا، ثم قال: هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟، فقالوا: نعم يا ابا القاسم، قال: هل جعلتم في هذه الشاة سما؟، قالوا: نعم، قال: ما حملكم على ذلك، قالوا: اردنا إن كنت كاذبا نستريح وإن كنت نبيا لم يضرك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْمَعُوا إِلَيَّ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ يَهُودَ فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ، فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ، قَالُوا: فُلَانٌ، فَقَالَ: كَذَبْتُمْ بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ، قَالُوا: صَدَقْتَ، قَالَ: فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْهُ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ وَإِنْ كَذَبْنَا عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا، فَقَالَ لَهُمْ: مَنْ أَهْلُ النَّارِ، قَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، قَالَ: هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا نَسْتَرِيحُ وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو (یہودیوں کی طرف سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بکری کا یا ایسے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے یہودی یہاں موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو، چنانچہ وہ سب آ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو، میں تم سے ایک بات پوچھوں گا۔ کیا تم لوگ صحیح صحیح جواب دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، تمہارے باپ کون تھے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارے باپ تو فلاں تھے۔ سب نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو تم صحیح واقعہ بیان کر دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، اے ابوالقاسم! اور اگر ہم جھوٹ بھی بولیں گے تو آپ ہماری جھوٹ کو اسی طرح پکڑ لیں گے جس طرح آپ نے ابھی ہمارے باپ کے بارے میں ہمارے جھوٹ کو پکڑ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ دوزخ میں جانے والے کون لوگ ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے لیکن پھر آپ لوگ ہماری جگہ داخل کر دئیے جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس میں برباد رہو، اللہ گواہ ہے کہ ہم تمہاری جگہ اس میں کبھی داخل نہیں کئے جائیں گے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو کیا تم مجھ سے صحیح واقعہ بتا دو گے؟ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہاں! اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں (نبوت میں) تو ہمیں آرام مل جائے گا اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
Narrated Abu Huraira: When Khaibar was conquered, a roasted poisoned sheep was presented to the Prophets as a gift (by the Jews). The Prophet ordered, "Let all the Jews who have been here, be assembled before me." The Jews were collected and the Prophet said (to them), "I am going to ask you a question. Will you tell the truth?'' They said, "Yes.' The Prophet asked, "Who is your father?" They replied, "So-and-so." He said, "You have told a ie; your father is so-and-so." They said, "You are right." He siad, "Will you now tell me the truth, if I ask you about something?" They replied, "Yes, O AbuAl-Qasim; and if we should tell a lie, you can realize our lie as you have done regarding our father." On that he asked, "Who are the people of the (Hell) Fire?" They said, "We shall remain in the (Hell) Fire for a short period, and after that you will replace us." The Prophet said, "You may be cursed and humiliated in it! By Allah, we shall never replace you in it.'' Then he asked, "Will you now tell me the truth if I ask you a question?" They said, "Yes, O Ab Li-AI-Qasim." He asked, "Have you poisoned this sheep?" They said, "Yes." He asked, "What made you do so?" They said, "We wanted to know if you were a liar in which case we would get rid of you, and if you are a prophet then the poison would not harm you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 394
أهديت لرسول الله شاة فيها سم فقال رسول الله اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود فجمعوا له فقال لهم رسول الله إني سائلكم عن شيء فهل أنتم صادقي عنه فقالوا نعم يا أبا القاسم فقال لهم رسول الله صلى الله ع
اجمعوا إلي من كان ها هنا من يهود فجمعوا له فقال إني سائلكم عن شيء فهل أنتم صادقي عنه فقالوا نعم قال لهم النبي من أبوكم قالوا فلان فقال كذبتم بل أبوكم فلان قالوا صدقت قال فهل أنتم صادقي عن شيء إن سألت عنه فقالوا نعم يا أبا القاسم وإن كذب
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3169
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ ﷺ نے اس یہودی عورت زینب بنت حارث نامی کو جس نے زہر ملایا تھا کچھ سزا نہ دی، بلکہ معاف کردیا، مگر جب بشر بن براءصحابی ؓ جنہوں نے اس گوشت میں سے کچھ کھالیا تھا، مرگئے تو آپ نے ان کا قصاص لیا، اور اس عورت کو قتل کرادیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3169
حدیث حاشیہ: 1۔ خیبر کے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے خلاف یہ ناپاک منصوبہ بنایا اور اسے ایک عورت کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وہ عورت مرحب یہودی کی بہن تھی جس کانام زینب بنت حارث تھا۔ یہودیوں کی طرف سے یہ غداری تھی کہ انھوں نے ایک یہودیہ کو آلہ کار بنا کررسول اللہ ﷺ کوزہریلا گوشت پیش کیا۔ آپ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں معاف کردیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک صحابی بشر بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس زہریلے گوشت سے فوت ہوگئے تھے تو آپ نے وہ عورت ان کے لواحقین کے حوالے کردی، انھوں نےاسے قصاصاً قتل کردیا۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4512 و الطبقات الکبریٰ لابن سعد: 202/2) چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس یہودی عورت کو قتل کرنے کی اجازت مانگی جس نے بکری میں زہرملایاتھا تو آپ نے اجازت نہ دی بلکہ آپ نے معاف کردیا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5706(2190) لہذا یہ صحیح ہے کہ اس موقع پر آپ نے اسے معاف کردیا اور بعد میں جب آپ کو علم ہوا کہ بشر اس زہر کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں تو قصاصاً اسے قتل کروادیاتھا۔ واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ہم کبھی دوزخ میں تمہارے جانشیں نہیں بنیں گے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ گار مسلمان تو جہنم میں جائیں گے لیکن انھیں بالآخر نکال لیا جائے گا، البتہ یہودی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے، یعنی خلود اور عدم خلود کی وجہ سے متفرق ہوجائیں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3169
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4249
4249. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب خیبر فتح کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری کا زہر آلود گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4249]
حدیث حاشیہ: زہر بھیجنے والی زینب بنت حارث سلام بن مشکم یہودی کی عورت تھی۔ اس نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کو دست کا گوشت بہت پسند ہے۔ اس نے اسی میں خوب زہر ملایا۔ آپ نے نوالہ چکھ کر تھوک دیا۔ بشربن براءؓ کھاگئے وہ مر گئے دوسرے صحابہ ؓ کو آپ نے منع فرمایا اور بتلادیا کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ نے اس عورت کو بلا کر پوچھا۔ وہ کہنے لگی میں نے یہ اس لیے کیا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو اللہ آپ کو خبر کر دےگا اگر آپ جھوٹے ہیں تو آپ کا مرنا بہتر ہے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے جب بشر بن براءؓ زہر کے اثر سے مر گئے تو آپ نے اس عورت کو بشر ؓ کے وارثوں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے اس کو قتل کردیا اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ زہر دے کر مار ڈالنا بھی قتل عمد ہے اور اس میں قصاص لازم آتا ہے اور حنفیہ کا رد ہوا جو اسے قتل بالسبب کہتے ہیں اور قصاص کو اس میں ساقط کرتے ہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4249
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5777
5777. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو ایک جگہ جمع کرو۔“ چنانچہ انہیں آپ کے پاس جمع کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے ابو القاسم! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارا باپ فلاں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم جھوٹ کہتے ہو، بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔“ انہوں نے جواب دیا: آپ نے سچ کہا اور درست فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5777]
حدیث حاشیہ: یہودیوں کا خیال صحیح ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر سے بذیعہ وحی مطلع فرما دیا مگر ذرا سا آپ چکھ چکے تھے جس کا اثر آخر تک رہا۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اسے اپنے ہاتھ نہ لگاتے مگر بعد میں وحی سے معلوم ہوا سچ فرمایا ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾(الاعراف: 188) اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور کبھی مجھ کو برائی نہ چھو سکتی۔ معلوم ہوا کہ آپ کے لیے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ بالکل باطل ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ وہ عورت کہنے لگی جس نے زہر ملایا تھا کہ آپ نے میرے بھائی، خاوند اور قوم والوں کو قتل کرایا میں نے چاہا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو یہ گوشت خود آپ سے کہہ دے گا اور اگر آپ دنیا دار بادشاہ ہیں تو آپ سے ہم کو راحت مل جائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5777
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4249
4249. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب خیبر فتح کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری کا زہر آلود گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4249]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ تالیف قلبی کے لیے ہر پیش کرنے والے کا ہدیہ قبول کر لیتے اور اسے کھابھی لیتے تھے، اس بنا پر فتح خیبر کے بعد سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ کی دعوت کا اہتمام کیا اور گوشت کا جو حصہ آپ کو تمام گوشت سے زیادہ پسندتھا اس میں سخت ترین زہرملا دیا۔ رسول اللہ ﷺ کو لقمہ منہ میں ڈالتے ہی پتہ چل گیا کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے لیکن آپ کے ساتھ ایک صحابی حضرت بشربن براء بن معرور ؓ تھے انھوں نے اسے کھایا تو وہ اس کے اثر کی وجہ سے فوراًوفات پا گئے۔ آپ نے اس یہودی عورت کو بلا کر پوچھا تو اس نے کہا: میں نے آپ کا امتحان لینے کے لیے یہ سنگین اقدام کیا تھا۔ آپ نے اپنے طور پر تو اسے معاف کر دیا لیکن بشربن براء بن معرو ؓ کے قصاص میں اسے قتل کردیا۔ (فتح الباري: 622/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4249
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5777
5777. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو ایک جگہ جمع کرو۔“ چنانچہ انہیں آپ کے پاس جمع کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے ابو القاسم! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارا باپ فلاں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم جھوٹ کہتے ہو، بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔“ انہوں نے جواب دیا: آپ نے سچ کہا اور درست فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5777]
حدیث حاشیہ: (1) یہودیوں کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر کے متعلق بذریعۂ وحی مطلع کر دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا گوشت چکھ لیا تھا جس کا اثر آخر دم تک رہا جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4428)(2) بکری کا زہر آلود گوشت پیش کرنے والی سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث تھی۔ اس نے کہا: آپ نے میرے باپ، خاوند، چچا اور بھائی کو قتل کیا ہے اور میری قوم کو بہت نقصان سے دوچار کیا، اس لیے میں نے چاہا کہ اپنے غصے کی آگ بجھاؤں۔ اگر آپ سچے رسول ہیں تو گوشت بول کر آپ سے کہہ دے گا اور اگر آپ دنیا دار بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس وقت بشر بن براء رضی اللہ عنہ تھے جو موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ (فتح الباري: 303/10)(3) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ زہر کا اثر انداز ہونا بھی متعدی بیماری کی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بداثرات سے محفوظ رہے اور آپ کے صحابی حضرت بشر بن براء رضی اللہ عنہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5777