(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا جعفر بن سليمان، عن علي بن علي، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل فكبر، قال: "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك. اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم: من همزه ونفثه ونفخه"ثم يستفتح صلاته. قال جعفر: وفسره مطر: همزه: الموتة، ونفثه: الشعر، ونفخه: الكبر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَكَبَّرَ، قَالَ: "سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ. أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ"ثُمَّ يَسْتَفْتِحُ صَلَاتَهُ. قَالَ جَعْفَرٌ: وَفَسَّرَهُ مَطَرٌ: هَمْزُهُ: الْمُوتَةُ، وَنَفْثُهُ: الشِّعْرُ، وَنَفْخُهُ: الْكِبْرُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں قیام کرتے تو تکبیر کے بعد «سُبْحَانَكَ اَللّٰھُمَّ ........... نفثه ونفخه» پڑھتے، ”اے اللہ! تو پاک ہے، ہر قسم کی تعریف تیرے لئے ہے، تیرا نام بابرکت ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اللہ سمیع علیم کے ساتھ شیطان رجیم سے پناہ مانگتا ہوں، اس کے وساوس، تکبر اور سحر سے، پھر نماز شروع کرتے تھے۔“ راوی حدیث جعفر نے کہا: مطر نے «همزه» کی تفسیر جنون اور «نفثه» کی (جادو کے) بال اور «نفخه» کی تکبر سے کی ہے۔ یعنی اے اللہ! میں شیطان راندۂ درگاہ سے اور اس کے مسلط کئے ہوئے جنون، جادو اور تکبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1270 سے 1273) نماز کے افتتاح کے وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دعائیں منقول ہیں۔ «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِي» اور «سُبْحَانَكَ اَللّٰهُمَّ» امام دارمی رحمہ اللہ نے نقل کی ہیں یہ صحیح ہیں۔ صحیحین میں «اللهم باعد بيني و بين خطاياي..... الخ» بھی مروی ہے جو اس روایت سے زیادہ صحیح ہے، اس کا ذکر آگے (1278) پر آرہا ہے۔ کسی ایک دعا کا التزام کرنے کے بجائے تنوع کے ساتھ کبھی یہ اور کبھی دوسری دعائے استفتاح پڑھی جائیں تو بہت اچھا ہے تاکہ ہر سنّت پر عمل ہو جائے۔ اور ان دعاؤں کے معانی و مفاہیم کو بھی ذہن میں رکھا جائے تو بہتر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1275]» اس حدیث کی سند بمجموع طرق جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 766]، [ترمذي 242]، [مسند أبى يعلی 1108]، [دارقطني 298/1]، [بيهقي 53/2]، [مصنف ابن أبى شيبه 232/1]، مذکورہ بالا سند میں علی بن علی الرفاعی متکلم فیہ ہیں۔ نیز اس کا شاہد دیکھئے: [مسلم 399/52]