(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر، وعثمان كانوا "يفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2". قال ابو محمد: بهذا نقول، ولا ارى الجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا "يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: بِهَذَا نَقُولُ، وَلَا أَرَى الْجَهْرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سب ہی نماز میں قرأت «الحمد لله رب العالمين» سے شروع کرتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہی ہم کہتے ہیں اور میں «بسم الله الرحمٰن الرحيم» جہراً کہنا درست نہیں سمجھتا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1273) جب «الحمد للّٰه رب العالمين» سے سب قرأت شروع کرتے تو بسم اللہ يقیناً سرّاً کہتے ہوں گے، لہٰذا صحیح یہ ہے کہ بسم اللہ سرّاً پڑھی جائے اور قرأت «الحمد للّٰه رب العالمين» سے ہی شروع کی جائے، اور اگر کبھی کبھار جہراً بھی بسم اللہ کہی جائے تو کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ سے ایسا کرنا بھی ثابت ہے۔ بعض لوگ نماز میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ جہراً پڑھنا لازمی قرار دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے، مذکورہ بالا حدیث ان کے قول کے سراسر خلاف ہے۔ والله اعلم
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1276]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 743]، [مسلم 399]، [مسند أبى يعلی 2881]، و [ابن حبان 1798]