(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن سعيد بن ابي عروبة، حدثنا بديل العقيلي، عن ابي الجوزاء، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفتتح الصلاة بالتكبير، ويفتتح القراءة ب الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، ويختمها بالتسليم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ الْعُقَيْلِيُّ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ، وَيَفْتَتِحُ الْقِرَاءَةَ ب الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، وَيَخْتِمُهَا بِالتَّسْلِيمِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے تھے، اور قرأت «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے شروع کرتے تھے، اور نماز کا اختام تسلیم سے کرتے تھے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1269) یعنی نماز کی ابتداء تکبیرِ تحریمہ سے اور قرأت الحمد للہ سے شروع کرتے تھے، اور اختتام کے وقت السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے تھے، ایک اور حدیث میں ہے: نماز کی کنجی وضوء ہے، تحریم اس کی تکبیر، و تحلیل تسلیم ہے، یعنی اللہ اکبر کہنے کے بعد عام كلام حرام ہو جاتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد حلال ہوتا ہے۔ «يفتتح القرأة بالحمد للّٰه رب العالمين» سے «بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم» جہرانہ پڑھنا ثابت ہوا، تفصیل حدیث نمبر 1274 کے ضمن میں آرہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جعفر بن عون متأخر السماع من ابن أبي عروبة. وبديل هو: ابن ميسرة غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1272]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ہے، جس کے اطراف متفرق طور پر صحاح ستہ میں موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 743]، [مسلم 399]، [أبوداؤد 783]، [ابن ماجه 812]، [أبويعلی 2881]، [ابن حبان 1798]، [الحميدي 1233]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جعفر بن عون متأخر السماع من ابن أبي عروبة. وبديل هو: ابن ميسرة غير أن الحديث متفق عليه