اخبرنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت داود بن ابي هند، يحدث عن الشعبي، عن ابي هريرة، قال: ((نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تنكح المراة على عمتها، والعمة على ابنة اخيها)).أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ دَاوُدَ بْنَ أَبِي هِنْدَ، يُحَدِّثُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَالْعَمَّةُ عَلَى ابْنَةِ أَخِيهَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ”عورت کی کسی ایسے شخص سے شادی کی جائے جس کے نکاح میں اس کی پھوپھی موجود ہو اور (اسی طرح) پھوپھی کی کسی ایسے شخص سے شادی کی جائے جس کے نکاح میں اس کی بھتیجی موجود ہو۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم الجمع بين المراة الخ، رقم: 1408. سنن ترمذي، رقم: 1126. سنن نسائي، رقم: 3290. مسند احمد: 189/2. طبراني اوسط، رقم: 5973. صحيح ابن حبان، رقم: 4114.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 599 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 599
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ رشتوں کو ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ لیکن یہ حرمت عارضی ہے ابدی نہیں، مختلف اوقات میں بعد از طلاق یا وفات نکاح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مذکورہ حدیث سے خوارج اور شیعہ کا بھی رد ہوتا ہے جن کا موقف ہے کہ یہ رشتے جمع کیے جا سکتے ہیں۔ (شرح مسلم للنووی: 5؍ 309)