اخبرنا معاوية بن هشام القصار، نا عمار بن رزيق، عن عبد الله بن عيسى، عن عكرمة، عن يحيى بن يعمر، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((من خبب خادما على اهله فليس منا، ومن افسد امراة على زوجها فليس منا)).أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ الْقَصَّارُ، نا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ خَبَّبَ خَادِمًا عَلَى أَهْلِهِ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ أَفْسَدَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا فَلَيْسَ مِنَّا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی خادم کو اس کے اہل (مالک) کے خلاف کر دیا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الطلاق، باب فيمن خبب امراة على زوجها، رقم: 2175. قال الشيخ الالباني: صحيح. صحيح ترغيب وترهيب، رقم: 2014. مسند احمد: 397/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 598 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 598
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ غلام کو مالک کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف ابھارنا حرام ہے۔کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں گی جس کا نتیجہ فتنہ فساد ہوگا۔ حالانکہ ایک مومن کی تو یہ صفت ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان اصلاح کروائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(التوبة: 71).... ”مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار ومعاون) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔“ دوسری جگہ پر فرمایا: ﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾(الحجرات: 10) .... ”سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اور اسی طرح مالک کو غلام کے خلاف کرنا اور خاوند کو اس کی بیوی کے خلاف ابھارنا بھی جائز نہیں ہے، یہ بھی حرام ہے۔