وقول الله تعالى: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى سورة الإسراء آية 1.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى سورة الإسراء آية 1.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) فرمایا «سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى»”پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا۔“
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، کہ مجھ سے کہا ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: That he heard Allah's Apostle saying, "When the people of Quraish did not believe me (i.e. the story of my Night Journey), I stood up in Al-Hijr and Allah displayed Jerusalem in front of me, and I began describing it to them while I was looking at it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 226
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3886
حدیث حاشیہ: معراج کی رات کو آپ ام ہانی کے گھر میں تھے، تو مسجد حرام سے حرم کی زمین مراد ہے۔ آپ کا معراج مکہ سے بیت المقدس تک تو قطعی ہے۔ جو قرآن پاک سے ثابت ہے اس کا منکر قرآن کامنکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے اور بیت المقدس سے آسمانوں تک صحیح حدیث سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ اور بدعتی ہے۔ حافظ نے کہا اکثر علماء سلف اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ یہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری میں ہوا۔ یہی امر حق ہے۔ بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے جب معراج کا قصہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکار کیا اورابو بکر ؓ کے پاس آئے انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اس دن سے ان کالقب صدیق ؓ ہوگیا۔ بزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بیت المقدس کی مسجد لائی گئی اور عقیل کے گھر کے پاس رکھ دی گئی۔ میں ا س کو دیکھتا جاتا اور اس کی صفت بیان کرتا جاتا تھا۔ بعض نے کہا کہ اسراءاور معراج دونوں الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں کیونکہ حضرت امام بخاری ؒ نے ہر دوکو الگ الگ بابوں میں بیان کیا ہے مگر خود حضرت امام بخاری ؒ نے کتاب الصلوۃ میں یہ باب باندھا ہے کہ لیلۃ الاسراء میں نماز کس طرح فرض ہوئی۔ معلوم ہواکہ اسراءاور معراج ایک ہی رات میں ہوئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3886
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3886
� تخريج الحديث: [109- البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 41 باب حديث الاسراء۔۔۔ 3886، مسلم 170، ترمذي 3133]
لغوی توضیح: «الحِجر» مراد حطیم ہے، یعنی بیت اللہ کے عراقی اور شامی کونے کے درمیان وہ جگہ جس کے گرد دائرے کی شکل میں ایک چھوٹی سی دیوار بنائی گئی ہے۔ جس کا مقصد ہے کہ لوگ اس کے باہر سے طواف کریں کیونکہ وہ جگہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے۔ دراصل ایامِ جاہلیت میں کفار مکہ کی حلال کمائی کم پڑ جانے کی وجہ سے اس جگہ کو بغیر تعمیر کیے ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس جگہ کو «حِجْرِ اِسْمَاعِيْل» بھی کہا جاتا ہے۔ «فَجَلَا» کھول دیا، ظاہر کر دیا۔
فھم الحدیث: دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے سامنے واقعہ معراج بیان کیا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے دوران بیت المقدس کا بھی ذکر فرمایا تھا اس لیے قریش نے آپ سے بیت المقدس کی صفات کے بارے میں سوال کر لیا، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے بیت المقدس ظاہر فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے بیت المقدس کی نشانیاں اور صفات بیان کرنا شروع کر دیں۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 109
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3886
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے اسراء اور معراج کے لیے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اسراء اور معراج الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں مگر یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء) ”اسراء کی رات نماز کس طرح فرض ہوئی؟“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی رات میں ہوئی ہیں کیونکہ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی تھی۔ (فتح الباري: 247/7) 2۔ اکثر علمائے سلف اور محدثین کا موقف ہے کہ اسراء اور معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوئے۔ 3۔ جب رسول اللہ ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکار کیا اور سیدنا ابو بکر ؓ نے اس کی تصدیق کی۔ اس دن سے حضرت ابو بکر ؓ کا لقب "صدیق"ہوگیا۔ 4۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جانے میں یہ حکمت ہے کہ آپ دونوں قبلوں کی زیادت کر لیں اور وہاں جا کر انبیائے کرام ؑ کی امامت کرائیں۔ یا اس لیے وہاں تشریف لے گئے کہ بیت المقدس مقام محشر ہے، آپ وہاں گئے تاکہ مختلف فضائل سے شرف یاب ہوں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3886
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 428
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے جھٹلایا، میں حِجر (حطیم) میں کھڑا ہوا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا اور میں اسے دیکھ کر انھیں اس کی نشانیاں بتلانے لگا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:428]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آج کے دور میں دنیا کی کوئی سی عمارت، دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹی وی کے ذریعہ دکھائی جا سکتی ہے، تو قدرت الہٰی کے سامنے کونسی چیز نا ممکن ہو سکتی ہے۔ (اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے) اگر اللہ نے آپ کو حطیم میں کھڑے بیت المقدس دکھا دیا تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 428
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4710
4710. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے جھوٹا قرار دیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا۔ میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔“ ابن شہاب زہری ہی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ”جب قریش نے واقعہ معراج کے متعلق میری تکذیب کی۔“ پھر پہلی حدیث کی طرح اسے بیان کیا۔ قَاصِفًا سے مراد وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4710]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے کہ قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا: تمھارے رسول اللہ ﷺ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور وہاں سے اس رات واپس آئے حالانکہ وہاں قافلہ ایک مہینے میں جاتا اور ایک مہینے میں واپس آتا ہے یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا واقعی انھوں نے یہ فرمایا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ (فتح الباری: 498/9) اس روزے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنه کو صدیق کا خطاب ملا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4710