صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
40. بَابُ قِصَّةُ أَبِي طَالِبٍ:
40. باب: ابوطالب کا واقعہ۔
(40) Chapter. The story of Abu Talib.
حدیث نمبر: 3883
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثنا عبد الملك، حدثنا عبد الله بن الحارث، حدثنا العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما اغنيت عن عمك فإنه كان يحوطك ويغضب لك، قال:" هو في ضحضاح من نار , ولولا انا لكان في الدرك الاسفل من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، قَالَ:" هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ , وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Abbas bin `Abdul Muttalib: That he said to the Prophet "You have not been of any avail to your uncle (Abu Talib) (though) by Allah, he used to protect you and used to become angry on your behalf." The Prophet said, "He is in a shallow fire, and had It not been for me, he would have been in the bottom of the (Hell) Fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 222


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6208عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح البخاري6572عباس بن عبد المطلبهل نفعت أبا طالب بشيء
   صحيح البخاري3883عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح مسلم510عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح مسلم511عباس بن عبد المطلبوجدته في غمرات من النار فأخرجته إلى ضحضاح
   مسندالحميدي465عباس بن عبد المطلبنعم وجدته في غمرات من النار فأخرجته إلى ضحضاح

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3883 کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3883  
تخريج الحديث:
[125۔ البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 40 باب قصة ابي طالب 3883، مسلم 209]
لغوی توضیح:
«يَحُوْطُكَ» وہ آپ کو بچایا کرتے تھے۔
«الضَّحْضَاح» جو پانی زمین پر بہہ کر ٹخنوں تک پہنچ جائے، یہاں اس مقدار کو «استعارةً» آگ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
«الدَّرْك» طبقہ۔
«الْاَسْفَل» سب سے نچلا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3883  
حدیث حاشیہ:
حضرت عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے ابو طالب کے متعلق سوال کرنا اس روایت کے ضعف پر دلالت کرتا ہے جس کا مضمون یہ ہے جب ابو طالب پر موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے لا إله إلا اللہ پڑھنے کے متعلق کہا لیکن اس نے انکار کردیا۔
پھر حضرت عباس ؓ نے اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہوئے دیکھے تو اپنے کان اس کی طرف لگائے پھر رسول اللہ ﷺ سے کہا:
اے میرے بھتیجے! اس نے وہ کلمہ پڑھ لیا ہے جو آپ نے پیش کیا تھا۔
یہ روایت بالکل ناقابل اعتبار ہے جو صحیح بخاری کی حدیث کے معارض پیش نہیں کی جا سکتی۔
اس کے شرک پر مرنے کی یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ان الفاظ میں خبر دی کہ آپ کا چچا جو گمراہ تھا مر گیا ہے تو آپ نے فرمایا:
اسے دفن کردو۔
حضرت علی ؓ نے کہا وہ بحالت شرک مرا ہے۔
آپ نے فرمایا:
بس اسے دفن کردو۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3214)
اس حدیث کا واضح مطلب ہے کہ ابو طالب شرک کی حالت میں مرا ہے۔
(فتح الباري: 245/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3883   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:465  
465- سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! جناب ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیا کرتے تھے، تو کیا اس کا انہیں کوئی فائدہ ہوگا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، میں نے انہیں جہنم کے بڑے حصے میں پایا تو انہیں نکال کر اس کے معمولی سے حصے میں لے آیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:465]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اس وقت تک کسی شخص کو جنت میں نہیں لے کر جائے گی، یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کر لے، بزرگوں کے عرس میلے منا لینے سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو جاتے، بلکہ اسلام قبول کر کے اس پرعمل کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 465   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6572  
6572. حضرت عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچایا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6572]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت مختصر ہے۔
دوسری جگہ ہے کہ آپ نے فرمایا، ہاں پہنچایا۔
وہ گھٹنوں تک عذاب میں ہیں اور اگر میری یہ شفاعت نہ ہوتی تو وہ دوزخ کے نیچے والے درجہ میں داخل ہوتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6572   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6208  
6208. حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتا تھا اور آپ کی خاطر لوگوں سے ناراض ہوتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میری وجہ سے وہ اس جگہ میں ہے جہاں ٹخنوں تک آگ ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقے میں ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6208]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''امید ہے کہ اسے میری سفارش کی وجہ سے جہنم میں ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں اس کے ٹخنوں تک آگ ہو گی جس سے اس کے دماغ کا مغز جوش مارے گا۔
'' (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6564) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ مشرکین و کفار کو ان کی کنیت سے یاد کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں عبداللہ بن ابی کی کنیت ابو حباب اور دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی کنیت ابو طالب ذکر ہوئی ہے۔
ان کی شہرت اسی کنیت سے تھی، اس لیے انہیں نام کے بجائے کنیت سے یاد کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کو اس کی کنیت سے ذکر کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔
(اللھب: 111: 1)
وہ ابو لہب کی کنیت سے مشہور تھا، اس لیے اس کا ذکر کر دیا گیا۔
ایسا کرنا ان کے احترام یا وقار کی وجہ سے نہیں بلکہ شہرت کی وجہ سے ہے۔
(3)
واضح رہے کہ ابو طالب کا نام عبد مناف اور ابو لہب کا نام عبدالعزیٰ تھا۔
(فتح الباري: 726/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6208   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6572  
6572. حضرت عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچایا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6572]
حدیث حاشیہ:
اختصار کے پیش نظر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو کوئی نفع پہنچایا جبکہ وہ آپ کی حفاظت کرتا تھا اور آپ کی خاطر دوسروں سے ناراض ہوتا تھا؟ آپ نے فرمایا:
اب جہنم کا عذاب اس کے ٹخنوں تک ہے، اگر میری سفارش نہ ہوتی تو وہ جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوتا۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3883)
ابو طالب کو برادری کی جھوٹی عزت نے تباہ کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6572   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.