ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن عبداللہ ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔“ ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابوحازم اور درا وردی نے بیان کیا یزید سے اسی مذکورہ حدیث کی طرح، البتہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوطالب کے دماغ کا بھیجہ اس سے کھولے گا۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: That he heard the Prophet when somebody mentioned his uncle (i.e. Abu Talib), saying, "Perhaps my intercession will be helpful to him on the Day of Resurrection so that he may be put in a shallow fire reaching only up to his ankles. His brain will boil from it." Narrated Yazid: (as above, Hadith 224) using the words: "will make his brain boil."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 224
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3885
حدیث حاشیہ: روایت میں ابو طالب کا ذکر ہے یہی وجہ منا سبت باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3885
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3885
حدیث حاشیہ: 1۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دعوت حق پیش کی تو اس نے کہا: اگر مجھے قریش کی عار کا اندیشہ نہ ہو کہ وہ کہیں گے ابو طالب نے موت سے گھبرا کر اپنا دین چھوڑدیا ہے، تو میں ضرور تیری آنکھیں ٹھنڈی کرتا۔ (مسند أحمد: 441/2) بہر حال اس نے کلمہ نہیں پڑھا، اس لیے وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اس کا دماغ ابلنے لگے گا تو اندر سے بھیجا نکل کر اس کے قدموں پر پڑے گا۔ (السیرةالنبویة لابن ِسحاق: 65/1، وفتح الباري: 245/7۔ 246) کفار کے اعمال انھیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے لیکن ابو طالب کو رسول اللہ ﷺ کی حمایت کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرورہوگا۔ یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت اور آپ کی برکت ہے۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل جہنم کے عذاب کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہوگی۔ (فتح الباري: 246/7) 4اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی صحیح رہنمائی کرنا رسول اللہ ﷺ کی ذمے داری ہے لیکن صراط مستقیم پر چلانا اللہ تعالیٰ کا اختیارہے۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو راہ راست پر نہیں لا سکتے آپ صرف راستہ دکھا سکتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔ (الشوری: 42۔ 52)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3885
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6564
´بعض جہنمیوں کو دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں زیادہ عذاب ہونا` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ:" لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آ جائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6564]
� فوائد و مسائل: یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے: [صحيح مسلم:210 يا 513] [مسند احمد:55،50،9،8/3] [مسند ابي يعلٰي:1360] [صحيح ابي عوانه:98،97/1] [صحيح ابن حبان:6238 يا 6271، وسنده صحيح] [دلائل النبوه للبهيقي:347/2] معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے آپ کے چچا کے عذاب میں کچھ تخفیف ہو گی لیکن اس تخفیف کے باوجود اس کا دماغ آگ کی گرمی کی وجہ سے کھول رہا ہو گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض جہنمیوں کو دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں زیادہ عذاب ہوتا ہے۔ یہ بات قرآن مقدس کی کسی آيت کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن مقدس میں جس استغفار و شفاعت سے منع کیا گیا ہے، اس سے مراد مذکور شخص کے لئے جہنم کے عذاب کا خاتمہ اور جنت میں داخلہ ہے اور یہ دونوں باتیں ابوطالب والی حدیث مذکور میں مفقود ہیں قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 34
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 513
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ ہوا، آپؐ نے فرمایا: ”امید ہے، قیامت کے دن میری سفارش اس کو نفع دے گی اور اسے ہلکی آگ میں ڈالا جائے گا، جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی، اس سے اس کا دماغ کَھول رہا ہو گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:513]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نبی اکرمﷺ کی نصرت وحمایت اور آپ کا تحفظ ودفاع، اللہ تعالیٰ کے ہاں، اس درجہ مقبول ہے کہ کفر کے باوجود، یہ ابو طالب کے حق میں نفع مندہوگا، لیکن اس قدرمحبت وپیار، نصرت وحمایت اورانتہائی قریبی رشتہ داری کے باوجود کفر کی غلاظت کی بنا پر وہ دوزخ سےنہیں نکل سکے گا، اور اپنے کفر کی بنا پر جس عذاب کامستحق ہوگا، اس میں کمی نہیں ہوگی۔ کفر کی شدت اور اعمال فاسدہ کی کثرت وقلت کی بنا پرسب کافر ایک جیسے عذاب کے حق دارنہیں ہوں گے، لیکن ابو طالب کے عذاب کی تخفیف وتقلیل (قلت) سے آپ کے والدین کے ایمان پر استدلال کرناعجیب منطق ہے، ابو طالب کےبارےمیں سفارش آپ ﷺ کا خاصہ بھی ہوسکتاہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 513
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6564
6564. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”ممکن ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت اس کے کام آجائے تو اسے جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6564]
حدیث حاشیہ: قرآن شریف میں ﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾(مدثر: 48)(ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کام نہ دے گی) لیکن آیت میں نفع سے یہ مراد ہے کہ وہ دوزخ سے نکال لیے جائیں، یہ فائدہ کافروں اور مشرکوں کے لیے نہیں ہوسکتا۔ اس صورت میں حدیث اور آیت میں اختلاف نہیں رہے گا مگر دوسری آیت میں جو یہ فرمایا ﴿فلا یُخَفَّفُ عَنهُمُ العذابُ﴾(البقرة: 86)(یعنی ان سے عذاب کم نہیں کیا جائے گا) اس کا جواب یوں بھی دے سکتے ہیں کہ جو عذاب ان پر شروع ہوگا وہ ہلکا نہیں ہوگا یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ بعض کافروں پر شروع ہی سے ہلکا عذاب مقرر کیا جائے، بعض کے لیے سخت ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6564
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6564
6564. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”ممکن ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت اس کے کام آجائے تو اسے جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6564]
حدیث حاشیہ: (1) قرآن مجید میں ہے: ”کفار کو سفارش کرنے والوں کی سفارش کام نہیں دے گی۔ “(المدثر: 48) اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم سے نہیں نکالا جائے گا۔ ایک دوسری آیت میں ہے کہ کفار سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ (البقرة: 86/2) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عذاب ان پر شروع ہو گا اس میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔ ابو طالب پر شروع ہی سے ہلکا عذاب ہو گا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں تمام کفار کو ایک جیسا عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اس میں مختلف مدارج ہوں گے۔ عقل اس کا تقاضا کرتی ہے کہ کچھ کافر اپنے کفر کے ساتھ اسلام کے دشمن بھی ہوں گے لیکن کچھ کافر کفر پر ہوں گے لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کی دشمنی نہیں ہو گی۔ سورۂ ممتحنہ میں کفار کی اس تفریق کو برقرار رکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6564