(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبد الملك ، حدثنا عبد الله مولى اسماء، قال: ارسلتني اسماء إلى ابن عمر انه بلغها انك تحرم اشياء ثلاثة: العلم في الثوب، وميثرة الارجوان، وصوم رجب كله، فقال: اما ما ذكرت من صوم رجب، فكيف بمن يصوم الابد؟ واما ما ذكرت من العلم في الثوب، فإني سمعت عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: اي" من لبس الحرير في الدنيا، لم يلبسه في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً: الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ، وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ، فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صَوْمِ رَجَبٍ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ؟ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أي" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ".
عبداللہ جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار کو، سرخ رنگ کے کپڑوں کو، مکمل ماہ رجب کے روزوں کو۔ انہوں نے جواباً کہلوا بھیجا کہ آپ نے رجب کے روزوں کو حرام قرار دینے کی جو بات ذکر کی ہے، جو شخص خود سارا سال روزے رکھتا ہو، وہ یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے؟ (یعنی یہ بات میں نے نہیں کہی) اور جہاں تک کپڑوں میں نقش و نگار کی بات ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، انا سالته، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: كنا مع عمر بين مكة، والمدينة، فتراءينا الهلال، وكنت حديد البصر، فرايته، فجعلت اقول لعمر : اما تراه؟ قال: ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم اخذ يحدثنا عن اهل بدر، قال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليرينا مصارعهم بالامس، يقول:" هذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى، وهذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى"، قال: فجعلوا يصرعون عليها، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما اخطئوا تيك، كانوا يصرعون عليها، ثم امر بهم، فطرحوا في بئر، فانطلق إليهم، فقال:" يا فلان، يا فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله حقا، فإني وجدت ما وعدني الله حقا"، قال عمر: يا رسول الله، اتكلم قوما قد انتنوا؟ قال:" ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكن لا يستطيعون ان يجيبوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، وَكُنْتُ حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ : أَمَا تَرَاهُ؟ قَالَ: سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى"، قَالَ: فَجَعَلُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَخْطَئوا تِيكَ، كَانُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ، فَطُرِحُوا فِي بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، يَا فُلَانُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ اللَّهُ حَقًّا، فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا"، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ قَوْمًا قَدْ أَنْتَنُوا؟ قَالَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لئے میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا: میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھا دیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی اور ان شاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے ”جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی“ ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا یا نہیں؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہو چکے، فرمایا: ”میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے (اور تم جواب دے سکتے ہو)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حسين المعلم ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: فلما رجع عمرو جاء بنو معمر بن حبيب يخاصمونه في ولاء اختهم إلى عمر بن الخطاب ، فقال: اقضي بينكم بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما احرز الولد او الوالد، فهو لعصبته من كان" فقضى لنا به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرٌو جَاءَ بَنُو مَعْمَرِ بْنِ حَبِيبٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلَاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ: أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوْ الْوَالِدُ، فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ" فَقَضَى لَنَا بِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو معمر بن حبیب اپنی بہن کی ولاء کا جھگڑ الے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اولاد یا والد نے جو کچھ بھی جمع کیا ہے وہ سب اس کے عصبہ کا ہو گا خواہ وہ کوئی بھی ہو، چنانچہ انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔
(حديث مرفوع) قرات على يحيى بن سعيد ، عن عثمان بن غياث ، قال: حدثني عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، وحميد بن عبد الرحمن الحميري ، قالا: لقينا عبد الله بن عمر ، فذكرنا القدر، وما يقولون فيه، فقال: إذا رجعتم إليهم، فقولوا: إن ابن عمر منكم بريء، وانتم منه برآء ثلاث مرار، ثم قال: اخبرني عمر بن الخطاب انهم بينما هم جلوس، او قعود عند النبي صلى الله عليه وسلم، جاءه رجل يمشي، حسن الوجه، حسن الشعر، عليه ثياب بياض، فنظر القوم بعضهم إلى بعض: ما نعرف هذا، وما هذا بصاحب سفر، ثم قال: يا رسول الله، آتيك؟ قال: نعم، فجاء فوضع ركبتيه عند ركبتيه، ويديه على فخذيه، فقال: ما الإسلام؟ قال:" شهادة ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت"، قال: فما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله وملائكته، والجنة والنار، والبعث بعد الموت، والقدر كله"، قال: فما الإحسان؟ قال:" ان تعمل لله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: فمتى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل"، قال: فما اشراطها؟ قال:" إذا العراة الحفاة العالة رعاء الشاء تطاولوا في البنيان، وولدت الإماء رباتهن، قال: ثم قال: علي الرجل"، فطلبوه، فلم يروا شيئا، فمكث يومين او ثلاثة، ثم قال:" يا ابن الخطاب، اتدري من السائل عن كذا وكذا؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" ذاك جبريل، جاءكم يعلمكم دينكم". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قال: وساله رجل من جهينة، او مزينة، فقال: يا رسول الله، فيما نعمل، افي شيء قد خلا او مضى، او في شيء يستانف الآن؟ قال:" في شيء قد خلا او مضى"، فقال رجل، او بعض القوم: يا رسول الله، فيما نعمل؟ قال:" اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، واهل النار ييسرون لعمل اهل النار"، قال يحيى، قال: هو هكذا، يعني: كما قرات علي.(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ، وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَقَالَ: إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ، فَقُولُوا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ، وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُمْ بَيْنَما هُمْ جُلُوسٌ، أَوْ قُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي، حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ: مَا نَعْرِفُ هَذَا، وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آتِيكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، فَقَالَ: مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ"، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ:" إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ، وَوَلَدَتْ الْإِمَاءُ رَبَّاتِهِنَّ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: عَلَيَّ الرَّجُلَ"، فَطَلَبُوهُ، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ، جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، أَوْ مُزَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ، أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ:" فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى"، فَقَالَ رَجُلٌ، أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ:" أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ"، قَالَ يَحْيَى، قَالَ: هُوَ هَكَذَا، يَعْنِي: كَمَا قَرَأْتَ عَلَيَّ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بَری ہے اور تم اس سے بَری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں قریب آ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو کم از کم یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔“ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں“، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا: ”جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آ گئی۔“ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔“ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے“، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا: ”اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني سلمة بن كهيل ، قال: سمعت ابا الحكم ، قال: سالت ابن عباس عن نبيذ الجر، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء، وقال: من سره ان يحرم ما حرم الله تعالى ورسوله، فليحرم النبيذ"، قال: وسالت ابن الزبير ، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والجر"، قال: وسالت ابن عمر ، فحدث عن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن الدباء والمزفت"، قال: وحدثني اخي ، عن ابي سعيد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الجر والدباء، والمزفت والبسر، والتمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ نبيذ الجر، فقال:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَقَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحَرِّمَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ، فَلْيُحَرِّمْ النَّبِيذَ"، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْجَرِّ"، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، فَحَدَّثَ عَنْ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ"، قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَالْمُزَفَّتِ وَالْبُسْرِ، وَالتَّمْرِ".
ابوالحکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی تونبی سے تو منع فرمایا ہے، اس لئے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نبیذ کو حرام سمجھے۔ ابوالحکم کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تونبی کی نبیذ سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تونبی اور لکڑی کو کھوکھلا کر کے بطور برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور کچی اور پکی کھجور کی شراب سے بھی منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، وحديث أبى سعيد، هو الخدري، إسناده صحيح
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن سعيد ، انا سالته، حدثنا هشام ، حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة : ان عمر خطب يوم جمعة، فذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر، وقال:" إني قد رايت كان ديكا قد نقرني نقرتين، ولا اراه إلا لحضور اجلي، وإن اقواما يامروني ان استخلف، وإن الله لم يكن ليضيع دينه، ولا خلافته، والذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر، فالخلافة شورى بين هؤلاء الستة الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، وإني قد علمت ان قوما سيطعنون في هذا الامر انا ضربتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا، فاولئك اعداء الله الكفرة الضلال. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وإني لا ادع بعدي شيئا اهم إلي من الكلالة، وما اغلظ لي رسول الله صلى الله عليه وسلم في شيء منذ صاحبته، ما اغلظ لي في الكلالة، وما راجعته في شيء ما راجعته في الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال:" يا عمر، الا تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء؟". فإن اعش اقضي فيها قضية يقضي بها من يقرا القرآن، ومن لا يقرا القرآن. (حديث موقوف) (حديث موقوف) ثم قال:" اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، فإنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم، وسنة نبيهم صلى الله عليه وسلم، ويقسموا فيهم فيئهم، ويعدلوا عليهم، ويرفعوا إلي ما اشكل عليهم من امرهم". رقم الحديث: 188 (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ايها الناس، إنكم تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد، امر به، فاخذ بيده، فاخرج إلى البقيع، ومن اكلهما، فليمتهما طبخا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ : أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، وَقَالَ:" إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا قَدْ نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلَا أُرَاهُ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ دِينَهُ، وَلَا خِلَافَتَهُ، وَالَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ، فَالْخِلَافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَوْمًا سَيَطْعُنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَإِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلَالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَاحَبْتُهُ، مَا أَغْلَظَ لِي فِي الْكَلَالَةِ، وَمَا رَاجَعْتُهُ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" يَا عُمَرُ، أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ؟". فَإِنْ أَعِشْ أَقْضِي فِيهَا قَضِيَّةً يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. (حديث موقوف) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ". رقم الحديث: 188 (حديث موقوف) (حديث مرفوع) أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ، فَأُخِذَ بِيَدِهِ، فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، وَمَنْ أَكَلَهُمَا، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو نہ ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتنا کلالہ کے مسئلے میں کیا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا: ”کیا تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی نہیں ہے؟“ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے، پھر فرمایا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو مار دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، عن مجالد ، عن عامر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول لطلحة بن عبيد الله : ما لي اراك قد شعثت واغبررت منذ توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ لعلك ساءك يا طلحة إمارة ابن عمك؟ قال: معاذ الله، إني لاحذركم ان لا افعل ذلك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم كلمة لا يقولها احد عند حضرة الموت إلا وجد روحه لها روحا حين تخرج من جسده، وكانت له نورا يوم القيامة"، فلم اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، ولم يخبرني بها، فذلك الذي دخلني، قال عمر: فانا اعلمها، قال: فلله الحمد، قال: فما هي؟ قال: هي الكلمة التي قالها لعمه: لا إله إلا الله، قال طلحة: صدقت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ : مَا لِي أَرَاكَ قَدْ شَعِثْتَ وَاغْبَرَرْتَ مُنْذُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ لَعَلَّكَ سَاءَكَ يَا طَلْحَةُ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَحْذَرُكُمْ أَنْ لَا أَفْعَلَ ذَلِكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ حَضْرَةِ الْمَوْتِ إِلَّا وَجَدَ رُوحَهُ لَهَا رَوْحًا حِينَ تَخْرُجُ مِنْ جَسَدِهِ، وَكَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَلَمْ أَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، وَلَمْ يُخْبِرْنِي بِهَا، فَذَلِكَ الَّذِي دَخَلَنِي، قَالَ عُمَرُ: فَأَنَا أَعْلَمُهَا، قَالَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، قَالَ: فَمَا هِيَ؟ قَالَ: هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي قَالَهَا لِعَمِّهِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ طَلْحَةُ: صَدَقْتَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہو جائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا: کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون ، انبانا ابو عميس ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، قال: جاء رجل من اليهود إلى عمر، فقال:" يا امير المؤمنين، إنكم تقرءون آية في كتابكم، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: واي آية هي؟ قال: قوله عز وجل: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي سورة المائدة آية 3، قال: فقال عمر : والله إنني لاعلم اليوم الذي نزلت فيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم، والساعة التي نزلت فيها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، عشية عرفة في يوم الجمعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً فِي كِتَابِكُمْ، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: وَأَيُّ آيَةٍ هِيَ؟ قَالَ: قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي سورة المائدة آية 3، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ إِنَّنِي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّاعَةَ الَّتِي نَزَلَتْ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ".
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: امیر المؤمنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں جو ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ جاں بحق ہو گیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے اس سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ”جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ اور اس کا رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہو گا۔“