سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان لیتے جو ایمان لا کر ہجرت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں، اس آیت کے ساتھ امتحان لیتے: «﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾»”اے نبی! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو آئیں اس بات پر کہ شریک نہ کریں گی اللہ کا کسی کو، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں، اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔“(الممتحنة: 12)۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2713، 4182، 4891، 5288، 7214، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1866، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5580، 5581، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8661، 9194، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3306، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2875، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16663، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25468، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4173، والطبراني فى «الصغير» برقم: 541، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9825»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تیر اندازی سیکھ لی پھر اسے بھلا دیا تو یہ اللہ کی نعمت ہے جس کا اس نے انکار کر دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 9095، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4177، والطبراني فى «الصغير» برقم: 543 قال الهيثمي: وفيه قيس بن الربيع وثقه شعبة والثوري وغيرهما وضعفه جماعة وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (5 / 269) قال الشيخ الألباني: صحيح لغيرہ»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب مکے میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ پگڑی تھی۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1358، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3722، 5425، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2871، 5346، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4076، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1735، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1982، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2822، 3585، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6060، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15133، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1873، 4463، 5396، 6971، والطبراني فى «الصغير» برقم: 39، 592، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 114»
حدثنا ابو شراعة عبد الله بن شراعة القيسي النصري ، حدثنا النمر بن كلثوم النمري ، حدثني ابي ، عن حميد الطويل ، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:"جاءت ربيعة النبي صلى الله عليه وآله وسلم يستاذنونه ان ينفروا في النفر الاول، فاتاه جبريل عليه السلام، فقال:" يا محمد، إن الله عز وجل يقرئك السلام، ويقول لك: قل لربيعة: لا تنفر في النفر الاول فلاقلنك من حبيب"، لا يروى عن انس، إلا بهذا الإسناد، تفرد به النمرحَدَّثَنَا أَبُو شَرَاعَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَرَاعَةَ الْقَيْسِيُّ النَّصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّمِرُ بْنُ كُلْثُومٍ النَّمَرِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"جَاءَتْ رَبِيعَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُونَهُ أَنْ يَنْفِرُوا فِي النَّفْرِ الأَوَّلِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَقَالَ:" يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَيَقُولُ لَكَ: قُلْ لِرَبِيعَةَ: لا تَنْفِرْ فِي النَّفْرِ الأَوَّلِ فَلأُقِلَّنَّكَ مِنْ حَبِيبٍ"، لا يُرْوَى عَنْ أَنَسٍ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ النَّمِرُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنو ربیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے لشکر میں نکلنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے: ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ پر سلام کہتے ہیں اور آپ کو فرماتے ہیں کہ بنو ربیعہ سے کہہ دو کہ پہلے لشکر میں کوچ نہ کریں ورنہ میں تمہارے دوست گھٹا دوں گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4494، والطبراني فى «الصغير» برقم: 629 قال الهيثمي: وفيه من لم أعرفه، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 265)»
حدثنا عبيد الله بن حبيب القيسي ، برمادة الرملة سنة اربع وسبعين ومائتين، حدثنا ابو عمرو زياد بن طارق وكان قد اتت عليه عشرون ومائة سنة، سمعت ابا جرول زهير بن صرد الجشمي ، يقول:" لما اسرنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم حنين يوم هوازن وذهب يفرق السبي والشاء اتيته، وانشات اقول في هذا الشعر: امنن علينا رسول الله في كرم فإنك المرء نرجوه وننتظر امنن على بيضة قد عاقها قدر مشتت شملها في دهرها غير ابقت لنا الدهر هتافا على حزن على قلوبهم الغماء والغمر إن لم تداركهم نعماء تنشرها يا ارجح الناس حلما حين يختبر امنن على نسوة قد كنت ترضعها إذ فوك تملاه من مخضها الدرر إذ انت طفل صغير كنت ترضعها وإذ يزينك ما تاتي وما تذر لا تجعلنا كمن شالت نعامته واستبق منا، فإنا معشر زهر إنا لنشكر للنعماء إذ كفرت وعندنا بعد هذا اليوم مدخر فالبس العفو من قد كنت ترضعه من امهاتك إن العفو مشتهر يا خير من مرحت كمت الجياد له عن الهياج إذا ما استوقد الشرر إنا نؤمل عفوا منك تلبسه هذي البرية إذ تعفو وتنتصر فاعف عفا الله عما انت راهبه يوم القيامة إذ يهدى لك الظفر قال: فلما سمع النبي صلى الله عليه وآله وسلم هذا الشعر، قال صلى الله عليه وآله وسلم: ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لكم، وقالت قريش: ما كان لنا فهو لله ولرسوله، وقالت الانصار: ما كان لنا فهو لله ولرسوله"، لم يرو عن زهير بن صرد بهذا التمام، إلا بهذا الإسناد، تفرد به عبيد اللهحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ الْقَيْسِيُّ ، بِرَمَادَةَ الرَّمْلَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو زِيَادُ بْنُ طَارِقٍ وَكَانَ قَدْ أَتَتْ عَلَيْهِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ سَنَةٍ، سَمِعْتُ أَبَا جَرْوَلٍ زُهَيْرَ بْنَ صُرَدٍ الْجُشَمِيَّ ، يَقُولُ:" لَمَّا أَسَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ يَوْمَ هَوَازِنَ وَذَهَبَ يُفَرِّقُ السَّبْيَ وَالشَّاءَ أَتَيْتُهُ، وَأَنْشَأْتُ أَقُولُ فِي هَذَا الشِّعْرِ: امْنُنْ عَلَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كَرَمٍ فَإِنَّكَ الْمَرْءُ نَرْجُوهُ وَنَنْتَظِرُ امْنُنْ عَلَى بَيْضَةٍ قَدْ عَاقَهَا قَدَرٌ مُشَتَّتٌ شَمْلُهَا فِي دَهْرِهَا غِيَرُ أَبْقَتْ لَنَا الدَّهْرَ هُتَّافًا عَلَى حَزَنٍ عَلَى قُلُوبِهِمُ الْغَمَّاءُ وَالْغَمَرُ إِنْ لَمْ تُدَارِكْهُمْ نَعْمَاءُ تَنْشُرُهَا يَا أَرْجَحَ النَّاسِ حِلْمًا حِينَ يُخْتَبَرُ امْنُنْ عَلَى نِسْوَةٍ قَدْ كُنْتَ تَرْضَعُهَا إِذْ فُوكَ تَمْلأَهُ مِنْ مَخْضِهَا الدَّرَرُ إِذْ أَنْتَ طِفْلٌ صَغِيرٌ كُنْتَ تَرْضَعُهَا وَإِذْ يَزِينُكَ مَا تَأْتِي وَمَا تَذَرُ لا تَجْعَلَنَّا كَمَنْ شَالَتْ نَعَامَتُهُ وَاسْتَبْقِ مِنَّا، فَإِنَّا مَعْشَرٌ زُهُرُ إِنَّا لَنَشْكُرُ لِلنَّعْمَاءِ إِذْ كُفِرَتْ وَعِنْدَنَا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ مُدَّخَرُ فَأَلْبِسِ الْعَفْوَ مَنْ قَدْ كُنْتَ تَرْضَعُهُ مِنْ أُمَّهَاتِكَ إِنَّ الْعَفْوَ مُشْتَهَرٌ يَا خَيْرَ مَنْ مَرَحَتْ كُمْتُ الْجِيَادِ لَهُ عَنِ الْهَيَاجِ إِذَا مَا اسْتَوْقَدَ الشَّرَرُ إِنَّا نُؤَمِّلُ عَفْوًا مِنْكَ تُلْبِسُهُ هَذِي الْبَرِيَّةَ إِذْ تَعْفُو وَتَنْتَصِرُ فَاعْفُ عَفَا اللَّهُ عَمَّا أَنْتَ رَاهِبُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذْ يُهْدَى لَكَ الظَّفَرُ قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ هَذَا الشَّعْرَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ، وَقَالَتْ قُرَيْشٌ: مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَقَالَتِ الأَنْصَارُ: مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ"، لَمْ يُرْوَ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ صُرَدٍ بِهَذَا التَّمَامِ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ عُبَيْدُ اللَّهِ
سیدنا ابوجرول زہیر بن صردجشمی کہتے ہیں: جب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین میں (ہوازن میں) قید کیا اور قیدی اور بکریاں تقسیم کرنے لگے تو میں اس پر شعر کہنے لگا: (1) مہربانی فرما کر اے اللہ کے رسول! ہم پر احسان کیجئے، آپ ایسے شخص ہیں جن سے ہم امید رکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ (2) ایسی جماعت پر احسان کیجئے کہ مقدر ان کے خلاف چل رہا ہے اور ان کی جمعیت بکھر گئی ہے اور زمانے نے ان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ (3) اس نے زمانے کو غم کا آوازہ دینے والا ہمارے لیے مقرر کر دیا ان کے دلوں پر تاریکیاں اور پردے ہیں۔ (4) اگر آپ ان پر اپنی مہربانیوں سے تدراک نہ کریں گے تو آپ ان کو مزید منتشر کر دیں گے، جب کوئی معاملہ کھل کر سامنے آجائے تو حوصلے کے لحاظ سے آپ تمام لوگوں سے برتر ہیں۔ (5) ان عورتوں پر احسان کیجئے جن کا آپ دودھ پیتے رہے جب کہ آپ اپنے منہ کو ان کے دودھ سے بھر رہے تھے جو موتیوں کی طرح تھا۔ (6) جب آپ چھوٹے بچے تھے اور دودھ پیتے تھے اور جو کچھ وہ لاتیں اور چھوڑتیں وہ چیز آپ کو زینت دیتی۔ (7) ہم کو اس شخص کی طرح نہ کیجئے جو جوش میں آکر ٹھنڈا ہوگیا ہو اور ہم کو باقی رکھیے کیونکہ ہم اچھے لوگ ہیں۔ (8) جب ناشکری ہو رہی ہو تو ہم نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد بھی ہم پر آپ کے احسانات کا ذخیرہ ہو گا۔ (9) تو آپ اپنی جن ماؤں کا دودھ پیتے رہے ان کو معافی سے ہمکنار کریں، بے شک معافی ایک مشہور چیز ہے۔ (10) اے بہترین ذات کہ جنگ کے وقت جب چنگارے اٹھ رہے ہیں اور عمدہ گھوڑے جس کے لیے اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں۔ (11) ہم آپ سے اس معافی کی امید رکھتے ہیں جو آپ اس مخلوق کو دیں گے۔ (12) تو آپ ہمیں معاف کر دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کے دن اس چیز سے معاف کرے جس سے آپ ڈر رہے ہیں جب کہ وہ آپ کے لیے کامیابی کو تحفہ بنا دے گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر سنے تو فرمایا: ”جو چیز میری یا بنو عبدالمطلب کی ہے وہ تمہاری ہے۔“ قریش نے کہا: جو چیز ہماری ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ انصار نے کہا: جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 5303، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4630، والطبراني فى «الصغير» برقم: 661 قال الهيثمي: فيه من لم أعرفهم، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (6 / 186)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ان کے خزانے فی سبیل اللہ خرچ کرو گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وله شواهد، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4798، والطبراني فى «الصغير» برقم: 689، قال الهيثمي: عن شيخه عبيد بن كثير التمار وهو متروك مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:، وله شواهد من حديث أبى هريرة الدوسي فأما حديث أبى هريرة الدوسي أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3027، 3120، 3618، 6630، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2918، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2216، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7305»
سیدنا عتبہ بن غزوان سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب سورج زائل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ”حملہ کرو“، پس ہم نے حملہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 287، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4850، والطبراني فى «الصغير» برقم: 709 قال الهيثمي: وفيه محمد بن جامع العطار وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (5 / 326)»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ”مشرکین کی ہجو کرو، اے اللہ! روح القدس سے اس کی مدد فرما۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7147، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6111، 6112، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5015، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2846، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25075، 25076، والطبراني فى «الكبير» برقم: 3580، 3581، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5117، والطبراني فى «الصغير» برقم: 769، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 250، 251، وله شواهد من حديث البراء بن عازب الأوسي، فأما حديث البراء بن عازب الأوسي، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3213، 4123، 6153، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2486، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 26545»
حدثنا محمد بن الفضل بن جابر الثقفي ببغداد، حدثنا فضيل بن عبد الوهاب ، حدثنا جعفر بن سليمان ، عن الخليل بن مرة ، عن عمرو بن دينار ، عن جابر بن عبد الله ، قال: لما كان يوم خيبر نفذ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رجلا فجبن، فجاء محمد بن سلمة، وقال: يا رسول الله،" لم ار كاليوم قط، فبكى محمد بن مسلمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا تمنوا لقاء العدو، وسلوا الله العافية، فإنكم لا تدرون ما تبتلون به منهم، فإذا لقيتموهم، فقولوا: اللهم، انت ربنا وربهم، ونواصينا بيدك، وإنما تقتلهم انت، ثم الزموا الارض جلوسا، فإذا غشوكم فانهضوا وكبروا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لابعثن غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبانه، لا يولي الدبر، فلما كان الغد بعث عليا وهو ارمد شديد الرمد، فقال: سر، فقال: يا رسول الله، ما ابصر موضع قدمي، فتفل في عينه، وعقد له اللواء، ودفع إليه الراية، فقال علي: على ما اقاتل يا رسول الله؟، قال: على ان يشهدوا ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، فإذا فعلوا ذلك فقد حقنوا دماءهم واموالهم إلا بحقها، وحسابهم على الله عز وجل"، لم يروه عن عمرو، إلا الخليل، ولا عن الخليل، إلا جعفر، تفرد به فضيل بن عبد الوهابحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ جَابِرٍ الثَّقَفِيُّ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ نَفَّذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ رَجُلا فَجَبُنَ، فَجَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةُ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" لَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ قَطُّ، فَبَكَى مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: لا تَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِنَّكُمْ لا تَدْرُونَ مَا تُبْتَلُونَ بِهِ مِنْهُمْ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ، أَنْتَ رَبُّنَا وَرَبُّهُمْ، وَنَوَاصِينَا بِيَدِكَ، وَإِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ أَنْتَ، ثُمَّ الْزَمُوا الأَرْضَ جُلُوسًا، فَإِذَا غَشُوكُمْ فَانْهَضُوا وَكَبِّرُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: لأَبْعَثَنَّ غَدًا رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبَّانِهِ، لا يُوَلِّي الدُّبُرَ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ بَعَثَ عَلِيًّا وَهُوَ أَرْمَدُ شَدِيدُ الرَّمَدِ، فَقَالَ: سِرْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أُبْصِرُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ، فَتَفَلَ فِي عَيْنِهِ، وَعَقَدَ لَهُ اللِّوَاءَ، وَدَفَعَ إِلَيْهِ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: عَلَى مَا أُقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: عَلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ حَقَنُوا دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عَمْرٍو، إِلا الْخَلِيلُ، وَلا عَنِ الْخَلِيلِ، إِلا جَعْفَرٌ، تَفَرَّدَ بِهِ فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب خیبر کا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دشمن کی طرف بھیجا تو وہ بزدل ہو گیا تو محمد بن مسلمہ آیا، کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آج جیسا میں نے کبھی نہیں دیکھا، پھر رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دشمن سے ملاقات کی آرزو نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت اور تندرستی مانگو، تمہیں معلوم نہیں کہ تم ان میں سے کس چیز کے ساتھ آزمائے جاتے ہو، جب تم ان سے ملو تو یوں کہو: «اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبُّنَا وَ رَبُّهُُمْ وَ نَوَاصِيْنَا بِيَدِكَ وَ اِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ اَنْتَ»”اے اللہ! تو ہمارا بھی رب ہے اور ان کا بھی، ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور تو ہی انہیں قتل کرے گا۔“ پھر زمین پر بیٹھ جاؤ، جب وہ آجائیں تو تم اٹھو اور تکبیریں کہو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ پیٹھ دے کر بھاگے گا نہیں۔“ جب دوسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ آنکھوں کی بیماری کی شدت میں مبتلا تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلو۔“ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو اپنے پیروں کی جگہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب لگایا تو ان کے لیے جھنڈا باندھ دیا گیا اور بڑا جھنڈا ان کے حوالے کیا گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس بات پر لڑائی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ وہ گواہی دیدیں کہ اللہ کے بغیر کسی کی بندگی نہ کریں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس طرح کریں تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچا لیں گے مگر اس کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 3948، 4367، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3425، 11606، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3341، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3928، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15945، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1746، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4286، والطبراني فى «الصغير» برقم: 790 قال الهيثمي: فيه فضيل بن عبد الوهاب قال أبو زرعة شيخ صالح وضعفه البخاري وغيره وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (5 / 328)»
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی غلام جنگ والی سر زمین میں یعنی دار الحرب میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا خون حلال ہو جاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 68، 69، 70، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 941، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4056، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4360، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16976، 16977، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19462، والحميدي فى «مسنده» برقم: 825، 826، والطبراني فى «الكبير» برقم: 2331، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5841، 5876، والطبراني فى «الصغير» برقم: 826، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33529»