(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق:"ان غلاما منهم حين ثغر يقال له مرثد: اوصى لظئر له من اهل الحيرة باربعين درهما، فاجازه شريح، وقال: من اصاب الحق، اجزناه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق:"أَنَّ غُلَامًا مِنْهُمْ حِينَ ثُغِرَ يُقَالُ لَهُ مَرْثَدٌ: أَوْصَى لِظِئْرٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ بِأَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، فأجازه شريح، وَقَالَ: مَنْ أَصَابَ الْحَقَّ، أَجَزْنَاهُ".
ابواسحاق سے مروی ہے کہ ان کے قبیلے کے ایک لڑکے نے جس کا نام مرثد تھا اور اس کے (دودھ کے) دانت گر گئے تھے، اس نے اہلِ حیرہ میں سے اپنی دایہ کے لئے چالیس درہم کی وصیت کی، قاضی شریح نے اس کو جائز قرار دیا اور فرمایا: جو کوئی حق بات کہے ہم نے اس کو جائز قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3329]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10905]، [اخبار القضاة 370/2]، [عبدالرزاق 16412، 16413]
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى: ان ابا بكر بن محمد بن عمرو بن حزم اخبره:"ان غلاما بالمدينة حضره الموت وورثته بالشام، وانهم ذكروا لعمر انه يموت، فسالوه ان يوصي، فامره عمر ان يوصي، فاوصى ببئر يقال لها: بئر جشم، وإن اهلها باعوها بثلاثين الفا، ذكر ابو بكر ان الغلام كان ابن عشر سنين، او ثنتي عشرة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى: أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَخْبَرَهُ:"أَنَّ غُلَامًا بِالْمَدِينَةِ حَضَرَهُ الْمَوْتُ وَوَرَثَتُهُ بِالشَّامِ، وَأَنَّهُمْ ذَكَرُوا لِعُمَرَ أَنَّهُ يَمُوتُ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يُوصِيَ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُوصِيَ، فَأَوْصَى بِبِئْرٍ يُقَالُ لَهَا: بِئْرُ جُشَمَ، وَإِنَّ أَهْلَهَا بَاعُوهَا بِثَلَاثِينَ أَلْفًا، ذَكَرَ أَبُو بَكْرٍ أَنَّ الْغُلَامَ كَانَ ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ، أَوْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ".
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ مدینہ میں ایک لڑکے کی موت کا وقت قریب آیا، اس کے وارثین شام میں تھے، لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ وہ قریب الموت ہے، کیا وصیت کر سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ وہ وصیت کر سکتا ہے، چنانچہ اس نے ایک کنواں جس کو بئر جشم کہا جاتا تھا اس کی وصیت کی جس کو اس کے مالکان نے تیس ہزار میں بیچا تھا۔ ابوبکر نے ذکر کیا: اس لڑکے کی عمر دس یا بارہ سال تھی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو بكر بن محمد لم يدرك عمر فيما نعلم والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 3330]» اس اثر کے رواۃ ثقات ہیں، لیکن ابوبکر بن محمد کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10896]، [عبدالرزاق 16411]، [الموطأ: فى الوصية، باب جواز وصية الصغير]، [البيهقي 282/6]، [ابن حزم 330/9]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو بكر بن محمد لم يدرك عمر فيما نعلم والله أعلم
(حديث مقطوع) حدثنا يزيد، عن هشام الدستوائي، عن حماد، عن إبراهيم، قال: "يجوز وصية الصبي في ماله في الثلث، فما دونه، وإنما يمنعه وليه ذلك في الصحة رهبة الفاقة عليه، فاما عند الموت، فليس له ان يمنعه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "يَجُوزُ وَصِيَّةُ الصَّبِيِّ في ماله في الثلث، فما دونه، وإنما يمنعه وليه ذلك في الصحة رهبة الفاقة عليه، فأما عند الموت، فليس له أن يمنعه".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: بچے کی اپنے مال میں تہائی یا اس سے کم کی وصیت جائز ہے، اور بحالتِ صحت اس کا ولی اس بچے کو فقر و فاقہ کے ڈر سے وصیت سے روک سکتا ہے، لیکن موت کے وقت اس کو وصیت سے روکنے کا اختیارنہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3331]» اس اثر کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10910] و [عبدالرزاق 16424] و [ابن منصور 436]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، وايوب، عن ابن سيرين، عن عبد الله بن عتبة:"انه اتي في جارية اوصت، فجعلوا يصغرونها، فقال: من اصاب الحق، اجزناه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خالد الحذاء، وَأَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ:"أَنَّهُ أُتِيَ فِي جَارِيَةٍ أَوْصَتْ، فَجَعَلُوا يُصَغِّرُونَهَا، فَقَالَ: مَنْ أَصَابَ الْحَقَّ، أَجَزْنَاهُ".
ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے عبداللہ بن عتبہ کے پاس ایک بچی لائی گئی جس نے وصیت کی تھی، لوگوں نے اس کو چھوٹی سمجھا، لیکن انہوں نے کہا: جس شخص نے صحیح بات کی ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله بن عتبة، [مكتبه الشامله نمبر: 3332]» اس اثر کی سند عبداللہ بن عتبہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10899]، [عبدالرزاق 16415]، [ابن منصور 432، 433]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله بن عتبة
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا قبيصة، انبانا سفيان، عن يحيى بن سعيد، عن ابي بكر:"ان سليما الغساني مات وهو ابن عشر، او ثنتي عشرة سنة، فاوصى ببئر له قيمتها ثلاثون الفا"، فاجازها عمر بن الخطاب، قال ابو محمد: الناس يقولون: عمرو بن سليم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ:"أَنَّ سُلَيْمًا الْغَسَّانِيَّ مَاتَ وَهُوَ ابْنُ عَشْرٍ، أَوْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَوْصَى بِبِئْرٍ لَهُ قِيمَتُهَا ثَلاثُونَ أَلْفًا"، فَأَجَازَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: النَّاسُ يَقُولُونَ: عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ.
ابوبکر سے مروی ہے کہ سلیم غسانی کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر دس یا بارہ سال تھی، انہوں نے اپنے کنویں کی وصیت کی جس کی قیمت تیس ہزار تھی، سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو جائز قرار دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سلیم غسانی کو لوگ عمرو بن سلیم کہتے ہیں (یعنی صحیح عمرو بن سلیم ہے نہ کہ سلیم غسانی)۔
تخریج الحدیث: «هكذا سمعه أبو محمد فرواه كما سمعه ولكنه ذكر الرواية الصحيحة في آخر الأثر. إسناده منقطع عمر بن سليم لم يدرك ابن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 3333]» اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ عمرو بن سلیم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں نہ تھے۔ دیکھے: [عبدالرزاق 16409]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هكذا سمعه أبو محمد فرواه كما سمعه ولكنه ذكر الرواية الصحيحة في آخر الأثر. إسناده منقطع عمر بن سليم لم يدرك ابن الخطاب
(حديث موقوف) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابنيه: عبد الله، ومحمد ابني ابي بكر، عن ابيهما مثل ذلك، غير ان احدهما قال: ابن ثلاث عشرة، وقال الآخر: قبل ان يحتلم. قال ابو محمد: عن ابنيه، يعني: ابني ابي بكر.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنَيْهِ: عَبْدِ اللَّهِ، وَمُحَمَّدٍ ابْنَيْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِمَا مِثْلَ ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّ أَحَدَهُمَا قَالَ: ابْنُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَقَالَ الْآخَرُ: قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: عَنْ ابْنَيْهِ، يَعْنِي: ابْنَيْ أَبِي بَكْرٍ.
عبداللہ اور محمد نے اپنے والد ابوبکر (بن محمد بن عمرو بن حزم) سے اسی طرح روایت کیا (جیسا اوپر گزرا) سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اس لڑکے کی عمر تیرہ سال تھی، اور دوسرے نے کہا: بالغ ہونے سے پہلے (وصیت کی)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «عن ابنيه» اس سے مراد ابوبکر کے دونوں بیٹے (عبداللہ اور محمد) ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3334]» اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، ابوبکر کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3317 سے 3323) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ بچے کی وصیت اگر معقول اور صحیح ہے تو نافذ العمل ہوگی۔ واللہ اعلم۔
(حديث مقطوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، انه كان يقول: "وصيته ليست بجائزة إلا ما ليس بذي بال، يعني: الغلام قبل ان يحتلم".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "وَصِيَّتُهُ لَيْسَتْ بِجَائِزَةٍ إِلَّا مَا لَيْسَ بِذِي بَالٍ، يَعْنِي: الْغُلَامَ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ".
معمر نے روایت کیا (امام) زہری رحمہ اللہ کہتے تھے (بچے کی) وصیت جائز نہیں ہے سوائے اس چیز کے جس کی حیثیت نہ ہو۔ یعنی بلوغت سے پہلے لڑکے کی وصیت نافذ العمل نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 3335]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10910]، [عبدالرزاق 16417]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الزهري
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عمرو بن عون، انبانا هشيم، عن يونس، عن الحسن، قال: "لا يجوز طلاق الغلام ولا وصيته، ولا هبته، ولا صدقته، ولا عتاقته، حتى يحتلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: "لَا يَجُوزُ طَلَاقُ الْغُلَامِ وَلَا وَصِيَّتُهُ، وَلَا هِبَتُهُ، وَلَا صَدَقَتُهُ، وَلَا عَتَاقَتُهُ، حَتَّى يَحْتَلِمَ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: بچے کی طلاق جائز ہے نہ اس کی وصیت، ہدیہ، صدقہ، نہ آزادی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3336]» اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10909]، [عبدالرزاق 16425]، [ابن منصور 435]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہ بچے کی طلاق جائز ہے نہ آزاد کرنا اور نہ اس کی وصیت، خرید و فروخت اور نہ کوئی اور چیز۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج، [مكتبه الشامله نمبر: 3337]» حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10908]، [عبدالرزاق 16421]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج