سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے کعب بن عجرۃ! جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا ایسا گوشت جو حرام سے بنا ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2818]» اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 1999]، [ابن حبان 1723]، [موارد الظمآن 1569]
وضاحت: (تشریح حدیث 2810) یعنی جس کی پرورش حرام سے ہو وہ جنّت میں نہ جائے گا، اس حدیث میں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے پیغمبرِ اسلام نے ساری امت کو حرام کھانے سے روکا ہے، اور یہ وعیدِ شدید سنائی ہے کہ جس کی رگوں میں حرام خون دوڑ رہا ہو اس سے جو بھی گوشت پرورش پائے گا وہ جہنمی ہوگا، لہٰذا چوری، ظلم، غصب، رشوت یا حرام چیزیں کھانے والا جنّت میں نہ جائے گا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو حاتم البصري هو روح بن اسلم البصري، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا ثابت، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن صهيب، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس إذ ضحك، فقال:"الا تسالوني مما اضحك؟"، فقالوا: مم تضحك؟، قال: "عجبا من امر المؤمن كله له خير: إن اصابه ما يحب، حمد الله عليه، فكان له خير، وإن اصابه ما يكره فصبر، كان له خير، وليس كل احد امره له خير إلا المؤمن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ رَوْحُ بِنُ أَسْلَمَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ ضَحِكَ، فَقَالَ:"أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّا أَضْحَكُ؟"، فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ؟، قَالَ: "عَجَبًا مِنْ أَمْرِ الْمُؤْمِنِ كُلُّهُ لَهُ خَيْرٌ: إِنْ أَصَابَهُ مَا يُحِبُّ، حَمِدَ اللَّهَ عَلَيْهِ، فَكَانَ لَهُ خَيْرٌ، وَإِنْ أَصَابَهُ مَا يَكْرَهُ فَصَبَرَ، كَانَ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ أَمْرُهُ لَهُ خَيْرٌ إِلَّا الْمُؤْمِنَ".
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اچانک ہنس پڑے اور فرمایا: ”کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟“ صحابہ نے عرض کیا: آپ کس چیز سے ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: ”مومن کا ہر کام عجیب (پسندیدہ) ہے، اگر اس کو ایسی چیز ملتی ہے جسے وہ پسند کرتا ہے تو وہ الله کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے لئے اچھائی ہے یعنی اس کو ثواب ملتا ہے، اور اگر اسے ایسی چیز پہنچتی ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس کے لئے بھلائی ہوتی ہے، اور مومن کے سوا کسی کو یہ چیز حاصل نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل روح بن أسلم. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2819]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2999]، [ابن حبان 2896]، [أبويعلی 4019]
وضاحت: (تشریح حدیث 2811) اس حدیث میں مؤمن کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خوشی و ناخوشی ہر حال میں راضی برضائے الٰہی رہتا ہے، خوشی نصیب ہو تو شکر کر کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے، مصیبت و پریشانی آتی ہے تو صبر کر کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے، اور کسی حال میں خسارے میں نہیں رہتا۔ الله تعالیٰ ہمیں صبر و شکر کی توفیق بخشے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل روح بن أسلم. ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: كنت اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا ادري اشيء انزل عليه ام شيء يقوله، وهو يقول: "لو كان، لابن آدم واديان من مال لابتغى إليهما ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدْرِي أَشَيْءٌ أُنْزِلَ عَلَيْهِ أَمْ شَيْءٌ يَقُولُهُ، وَهُوَ يَقُولُ: "لَوْ كَانَ، لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى إِلَيْهِمَا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تھا اور جانتا نہیں تھا کہ یہ وحی کے الفاظ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر آدمی کے پاس مال سے بھری دو وادیاں ہوں تب بھی وہ تیسری وادی کی تلاش میں رہے گا، اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے، اور الله تعالیٰ رجوع کرتا ہے اس کی طرف جو توبہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2820]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6439]، [نحوه مسلم 1048]، [مثله أبويعلی 2849]، [ابن حبان 3235، و له شواهد]
وضاحت: (تشریح حدیث 2812) مسلم شریف میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسے ہی مروی ہے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں، اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی مروی ہے، اس سے اس حدیث کی اہمیت واضح ہوتی ہے، اور دنیا کی مذمت و کراہت، اور انسان کی فطرت کہ اس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں ہے، ہمیشہ ھل من مزید کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے، تا آنکہ موت اور مٹی سے اس کا پیٹ بھرتا ہے۔ سورۂ تکاثر کے نزول سے پہلے اس عبارت کو قرآن کی طرح تلاوت کیا جاتا رہا، پھر جب « ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ﴾ » نازل ہوئی تو اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی، مضمون ایک ہی ہے جس میں انسان کی حرص و طمع کا بیان ہے۔ (مولانا راز رحمہ اللہ)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا عبد الله بن عامر، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يقص إلا امير، او مامور، او مراء". قلت لعمرو بن شعيب: إنا كنا نسمع متكلف. فقال: هذا ما سمعت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ، أَوْ مَأْمُورٌ، أَوْ مُرَاءٍ". قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ: إِنَّا كُنَّا نَسْمَعُ مُتَكَلِّفٌ. فَقَالَ: هَذَا مَا سَمِعْتُ.
عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا (سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وعظ و نصیحت میں) قصے بیان نہیں کرتا ہے مگر حاکم یا جو حاکم کی طرف سے وعظ کہنے پر مقرر ہو یا ریا کار ہو (تاکہ قصہ گوئی سے متاثر ہوکر لوگ اس کی تعریف کریں)۔“ عبداللہ بن عامر نے کہا: میں نے عمرو بن شعیب سے سنا: تکلف کرنے والے کا نام سنا کرتے تھے، تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سنا ہے۔ (یہ ان کی ایمان داری ہے کہ جیسا سنا ویسے ہی روایت کر دیا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن عامر الأسلمي، [مكتبه الشامله نمبر: 2821]» اس حدیث کی سند عبداللہ بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن متابعت موجود ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3753]، [أحمد 83/2، 178]، [مجمع الزوائد 921]
وضاحت: (تشریح حدیث 2813) اس حدیث کی تشریح میں علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسلامی حکومتوں میں یہ دستور ہوتا ہے کہ حاکم اور امیر خود لوگوں کو خطبہ سناتا ہے، وعظ و نصیحت کرتا ہے، یا جن لوگوں کو اس کے لائق سمجھتا ہے ان کو اپنی طرف سے نائب مقرر کرتا ہے وہ خطبہ پڑھتے ہیں، کیونکہ ہر کسی کو خطبہ یا وعظ کا اختیار دیا جائے تو ممکن ہے ایک جاہل عام لوگوں کو بھڑکا دے اور ان کے عقیدے کو خراب کر دے، جیسے ہمارے زمانے میں جاہل واعظ کیا کرتے ہیں کہ سوا قصے اور حکایات بیان کرنے کے نہ ان کو امر بالمعروف سے غرض ہوتی ہے نہ نہی عن المنکر سے، اور صحیح احادیث کے بجائے موضوع اور ضعیف احادیث لوگوں کو سناتے اور گمراہ کرتے ہیں۔ بعض نے کہا وعظ سے مراد یہاں جمعہ اور عید کا خطبہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ خطیب حاکم یا اس کے نائب کے سوا کوئی نہ ہو، اس سے مراد وہ وعظ نہیں جو دیندار عالم اللہ کے لئے بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں، نہ ان کو قاص (قصہ خواں) کہہ سکتے ہیں، بلکہ ایسے عالم تو انبیاء کے نائب اور پیرو ہیں (انتہیٰ)۔ بہرحال قصہ خوانی اور بے سر و پا حکایات بیانی اس حدیث کی رو سے ممنوع ہوئیں، درس و تدریس اور وعظ و نصیحت میں قرآن پاک اور احادیثِ نبویہ کا بے پایاں ذخیرہ موجود ہے جن میں مثالیں، صحیح واقعات موجود ہیں، خطبہ و وعظ میں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ (مترجم)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن عامر الأسلمي
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا يحيى بن ابي بكير، عن شعبة، عن عبد الملك بن ميسرة، قال: سمعت كردوسا وكان قاصا، يقول: اخبرني رجل من اهل بدر , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لان اقعد في مثل هذا المجلس احب إلي من ان اعتق اربع رقاب". قال: قلت: انا: اي مجلس يعني؟، قال: كان حينئذ يقص. قال ابو محمد: الرجل من اصحاب بدر هو: علي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، قالَ: سَمِعْتُ كُرْدُوسًا وَكَانَ قَاصًّا، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَأَنْ أَقْعُدَ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَجْلِسِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ". قَالَ: قُلْتُ: أَنَا: أَيَّ مَجْلِسٍ يَعْنِي؟، قَالَ: كَانَ حِينَئِذٍ يَقُصُّ. قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ هُوَ: عَلِيٌّ.
عبدالملک بن میسرہ نے کہا: میں نے کردوس سے سنا جو قصہ گو تھا کہ اہلِ بدر کے ایک شخص نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر میں اس جیسی مجلس میں بیٹھوں تو میرے نزدیک زیادہ اچھا ہے کہ چار غلام آزاد کر دوں“، راوی نے کہا: میں نے پوچھا کون سی مجلس اس سے مراد تھی؟ کہا: اس مجلس میں اس وقت قصہ خوانی ہو رہی تھی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اہلِ بدر کے مذکورہ صحابی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2822]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [مجمع الزوائد 925 بتحقيق حسين سليم الداراني]
وضاحت: (تشریح حدیث 2814) اس حدیث میں حکایات و قصے سننے سے کراہت تو ہے لیکن ممانعت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام یا تابعین و اسلاف کرام کے سچے واقعات اگر وعظ و تقریر میں بیان کر دیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں، لیکن واقعات سچے ہوں من گھڑت نہ ہوں۔ قرآن پاک میں انبیاء و رسل کے قصے ہیں، اصحابِ کہف کا قصہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہت سے واقعات کتبِ حدیث میں مذکور ہیں، جیسے اصحابِ غار کاواقعہ۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا. ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2823]» اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6133]، [مسلم 2998]، [أبوداؤد 4862]، [ابن ماجه 3982]، [ابن حبان 663]، [الأدب المفرد 1278]، [مشكل الآثار 197/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2815) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو جب ایک بار کسی چیز کا تجربہ ہو جاتا ہے اور نقصان اٹھاتا ہے تو دوبارہ دھوکا نہیں کھاتا، ہوشیار رہتا ہے، یعنی دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک کر پیتا ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا: یہ جملہ خبریہ ہے لیکن امر کے معنی میں ہے، مطلب یہ کہ مؤمن ہوشیار رہے، کوئی غفلت میں اس کو دھوکہ نہ دے جائے، اور یہ دھوکہ بازی دین اور دنیا کے کسی بھی معاملے میں ہو سکتی ہے، لہذا مؤمن کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی جب ایک شاعر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا پکڑا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر اسے چھوڑ دیا کہ ہجو نہ کرے، وہ پھر ایذا پہنچانے لگا، پھر پکڑا گیا اور کہنے لگا کہ اب دوبارہ ایسا نہ کروں گا، تب آپ نے فرمایا: «لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا. ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن مجالد، عن عامر، عن جابر , قال: وربما سكت عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تدخلوا على المغيبات، فإن الشيطان يجري من ابن آدم كمجرى الدم"، قالوا: ومنك؟، قال:"نعم، ولكن الله اعانني عليه فاسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: وَرُبَّمَا سَكَتَ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ كَمَجْرَى الدَّمِ"، قَالُوا: وَمِنْكَ؟، قَالَ:"نَعَمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن عورتوں کے شوہر غائب ہوں ان کے پاس داخل نہ ہو، اس لئے کہ شیطان رواں رہتا ہے۔“ بعض اوقات راوی نے کہا: ”کیوں کہ شیطان آدمی کے جسم میں ایسے ہی چلتا ہے جیسے خون (چلتا ہے)۔“ صحابہ نے عرض کیا: اور آپ کے بدن میں بھی؟ فرمایا: ”ہاں، میرے بدن میں بھی، لیکن الله تعالیٰ نے میری اس پر مدد کی ہے، پس وہ تابع فرمان ہوگیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2824]» مجالد بن سعید کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1172]، [أحمد 397/3]، [مشكل الآثار 30/1]۔ لیکن اس کے شواہد صحیح موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 2038]، [مسلم 2175] و [أبويعلی 3470]
وضاحت: (تشریح حدیث 2816) «فَأَسْلَمُ» اور «فَأُسْلَم» دو طرح سے مروی ہے، یعنی وہ تابع فرمان ہو گیا ہے، یا میں اس سے محفوظ ہو گیا ہوں۔ اس حدیث کے طرفِ اوّل میں اجنبی عورتوں کے پاس تنہاجانے، اور ان کے ساتھ خلوت کرنے، تنہائی میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ بعض دوسری صحیح روایات میں ہے: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَى النِّسَاءِ»[بخاري 5232]، [مسلم 2172]، نیز «لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ»[بخاري 5233]، [مسلم 1341]، اور حدیث سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا میں شیطان کے رگوں میں خون کی طرح دوڑنے کا ذکر ہے، دیکھئے۔ [بخاري 2038]، [مسلم 2175]، ان تمام روایات میں اجنبی عورت سے دور رہنے کا حکم ہے۔ ایک حدیث ہے: کوئی اجنبی مرد جب اجنبی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان میں تیسرا ہوتا ہے، یعنی فتنہ و فساد میں مبتلا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے، اور اسی سے معاشرے میں بہت سے فتنے جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو شیطان اور حبائل الشیطان سے محفوظ رکھے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عاصم، عن مصعب بن سعد، عن سعد، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: اي الناس اشد بلاء؟، قال: "الانبياء، ثم الامثل فالامثل، يبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان في دينه صلابة زيد صلابة، وإن كان في دينه رقة، خفف عنه، ولا يزال البلاء بالعبد حتى يمشي على الارض ما له خطيئة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءَ؟، قَالَ: "الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَابَةٌ زِيدَ صَلَابَةً، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ، خُفِّفَ عَنْهُ، وَلَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَمْشِيَ عَلَى الْأَرْضِ مَا لَهُ خَطِيئَةٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کن لوگوں کا امتحان سخت ہوتا ہے؟ (ان پر آفت و مصیبت زیادہ آتی ہے)، فرمایا: ”پیغمبروں پر، پھر ان پر جو مرتبے میں ان کے بعد افضل ہیں، پھر جو ان کے بعد افضل ہیں، اور آدمی پر اس کے دین کے موافق بلا آتی ہے، اگر وہ اپنے دین میں قوی اور سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی شدید و سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کے دل میں نرمی اور کمی ہوتی ہے تو مصیبت میں اس پر کمی رہتی ہے، اور بندے پر اسی انداز میں (دکھ، بیماری، افلاس، رنج کی) مصیبت پڑتی رہتی ہے جہاں تک کہ وہ زمین پر چلتا ہے اور کوئی گناہ اس پرنہیں رہتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2825]» اس حدیث کی سند حسن اور دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2398]، [ابن ماجه 4023]، [أبويعلی 830]، [طيالسي 44/2، 2091]، [مشكل الآثار 61/2]، [شعب الإيمان 9775]
وضاحت: (تشریح حدیث 2817) یعنی آفات و مصیبتوں پر صبر و شکر کے نتیجہ میں اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور وہ آلام و مصائب اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں، معلوم ہوا کہ اچھے، نیک و صالح اللہ کے بندے اکثر مصیبت، سختی و تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو اللہ کا غضب یا ناراضگی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ یہ آلام و مصائب تو گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہیں، لہٰذا مؤمن کو مطمئن و مسرور، راضی برضائے الٰہی رہ کر صبر و شکر سے کام لینا چاہے۔ ایک اور حدیث ہے: الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے مصائب و امراض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ [بخاري 5645] ۔ یہ مؤمن کے لئے بڑی بشارت و خوش خبری ہے کہ دنیا میں مصیبت و پریشانی ڈال کر اللہ تعالیٰ اس کو بالکل پاک و صاف کر دیتا ہے اور اس حالت میں وہ اللہ سے جا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت و پریشانی میں ہمیں صبر و شکر کی توفیق بخشے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، حدثنا مالك، عن الزهري، عن عبيد الله، عن ابن عباس، عن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "لا تطروني كما تطري النصارى عيسى ابن مريم، ولكن قولوا: عبد الله ورسوله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا تُطْرُونِي كَمَا تُطْرِي النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، وَلَكِنْ قُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم کو نصاریٰ نے ان کے مرتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے، (بلکہ میرے متعلق یہی) کہا کرو کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2826]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3445]، [أبويعلی 153]، [ابن حبان 413]، [الحميدي 27]
وضاحت: (تشریح حدیث 2818) «اطراء» لغت میں مدح کرتے ہوئے حد سے زیادہ بڑھ جانے کو کہتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام نے سختی سے منع فرمایا اور بتایا کہ میرا رتبہ اتنا ہی رکھنا جتنا مجھے الله تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میں اس کا بندہ ہوں اور رسول بھی، بس اس سے زیادہ مجھے نہ بڑھانا، نہ میری مدح سرائی میں اس حد سے آگے بڑھنا، اللہ کے بندے، رسول، اللہ کے حبیب، اللہ کے خلیل، اشرف الانبیاء و المرسلین، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی یہ ہی حد ہے۔ الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بندہ قرار دیا: « ﴿لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ﴾[الجن: 19] »، « ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ﴾[الإسراء: 1] » اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نہایت درجہ خوش تھے۔ لیکن آج کے دور میں نعت خوانی میں لوگ اتنے زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بلکہ بعض تو نصاریٰ سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں، انہوں نے اپنے نبی کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ آج کا نام نہاد مسلمان کہتا ہے: وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے زمیں پر مصطفیٰ ہو کر «نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ ذٰلِكَ» یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا۔ خواجہ الطاف حسین رحمہ اللہ نے ان تعلیمات کو بڑے دلکش انداز میں ذکر کیا ہے، سنئے: تم اوروں کی مانند دھوکہ نہ کھانا کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا سب انسان ہیں واں جس طرح سر فگندہ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ بنانا نہ تربت کو میری صنم تم نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہم تم مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی کہ بندہ ہوں اس کا اور ایلچی بھی
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، عن شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "جعل الله الرحمة مائة جزء فامسك عنده تسعة وتسعين، وانزل في الارض جزءا واحدا، فمن ذلك الجزء يتراحم الخلق، حتى ترفع الفرس حافرها عن ولدها خشية ان تصيبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ، حَتَّى تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے، نناوے حصے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر اتارا، پس اسی جزء سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ گھوڑی اپنے کھر (سم) اپنے بچے سے اٹھا لیتی ہے اس خوف سے کہ بچے کو نہ لگ جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2827]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6000، 6469]، [مسلم 2752]، [ابن ماجه 4293]، [أبويعلی 3672]، [ابن حبان 6147]
وضاحت: (تشریح حدیث 2819) ابن حبان میں ہے: اسی ایک حصہ رحمت سے انسان، حیوان، درندے، حشرات ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اسی رحمت کے باعث نافرمانیوں اور فتنہ و فساد کے باوجود گنہگاروں کو ہر قسم کے دنیاوی لوازمات سے نوازتا ہے، اور قیامت کے دن بھی رحم فرمائے گا، اور تھوڑے دن عذاب میں مبتلا رکھ کر جس کے دل میں ادنیٰ سا ایمان بھی ہوگا اس کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا۔ ماں باپ، انسان اور حیوان کی اپنے بچوں کے ساتھ رحمت و شفقت معلوم و محسوس چیز ہے جو چڑیا اور بندر تک میں دیکھنے کو ملتی ہے، یہاں گھوڑی کا اپنے بچہ پر اس درجہ رحم کرنا قدرت کا ایک کرشمہ ہے، لیکن انسانوں میں کتنے ایسے سنگدل ہوتے ہیں کہ مطلق رحم کرنا نہیں جانتے۔ اللہ انہیں ہدایت دے اور وہ جانوروں سے سبق لیں، خلقِ خدا پر رحم کریں، نیز مؤمن بندے کو امید و خوف کی منزل میں رہنا چاہیے۔ کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر