(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن مجالد، عن عامر، عن جابر , قال: وربما سكت عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تدخلوا على المغيبات، فإن الشيطان يجري من ابن آدم كمجرى الدم"، قالوا: ومنك؟، قال:"نعم، ولكن الله اعانني عليه فاسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: وَرُبَّمَا سَكَتَ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ كَمَجْرَى الدَّمِ"، قَالُوا: وَمِنْكَ؟، قَالَ:"نَعَمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن عورتوں کے شوہر غائب ہوں ان کے پاس داخل نہ ہو، اس لئے کہ شیطان رواں رہتا ہے۔“ بعض اوقات راوی نے کہا: ”کیوں کہ شیطان آدمی کے جسم میں ایسے ہی چلتا ہے جیسے خون (چلتا ہے)۔“ صحابہ نے عرض کیا: اور آپ کے بدن میں بھی؟ فرمایا: ”ہاں، میرے بدن میں بھی، لیکن الله تعالیٰ نے میری اس پر مدد کی ہے، پس وہ تابع فرمان ہوگیا ہے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2816) «فَأَسْلَمُ» اور «فَأُسْلَم» دو طرح سے مروی ہے، یعنی وہ تابع فرمان ہو گیا ہے، یا میں اس سے محفوظ ہو گیا ہوں۔ اس حدیث کے طرفِ اوّل میں اجنبی عورتوں کے پاس تنہاجانے، اور ان کے ساتھ خلوت کرنے، تنہائی میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ بعض دوسری صحیح روایات میں ہے: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَى النِّسَاءِ»[بخاري 5232]، [مسلم 2172]، نیز «لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ»[بخاري 5233]، [مسلم 1341]، اور حدیث سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا میں شیطان کے رگوں میں خون کی طرح دوڑنے کا ذکر ہے، دیکھئے۔ [بخاري 2038]، [مسلم 2175]، ان تمام روایات میں اجنبی عورت سے دور رہنے کا حکم ہے۔ ایک حدیث ہے: کوئی اجنبی مرد جب اجنبی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان میں تیسرا ہوتا ہے، یعنی فتنہ و فساد میں مبتلا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے، اور اسی سے معاشرے میں بہت سے فتنے جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو شیطان اور حبائل الشیطان سے محفوظ رکھے، آمین۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2824]» مجالد بن سعید کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1172]، [أحمد 397/3]، [مشكل الآثار 30/1]۔ لیکن اس کے شواہد صحیح موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 2038]، [مسلم 2175] و [أبويعلی 3470]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد