سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے لوگ جرد مرد سرمگیں ہیں، نہ ان کے کپڑے پھٹیں گے نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن محمد بن يزيد أبو هاشم الرفاعي، [مكتبه الشامله نمبر: 2868]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2539]، [أبويعلی 5088]، [أبونعيم فى صفة الجنة 356، له شاهد فى الطبراني فى الصغير 140/2، وعنه غيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2859 سے 2861) «جُرْدٌ» اس شخص کو کہتے ہیں جس کے جسم، بغل و زیرِ ناف وغیرہ پر بال نہ ہوں، اور «مُرْدٌ» جمع ہے امرد کی اور امرد ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے داڑھی مونچھ نہ آئی ہو، عالمِ عنفوانِ شباب میں ہو، اور ان اماکن پر بالوں کا نہ ہونا جنّت میں حسن و خوبصورتی کا باعث ہوگا، اور «كُحْلٌ» کحیلی کی جمع ہے جس کے معنی اکحل کے ہیں، یعنی جس کی پلکیں دراز اور اس کے منبت سیاه، گویا سرمہ لگا ہوا ہے۔ یہ تمام صفات جنتی لوگوں کے حسن و شباب کی ہیں۔ «جعلنا اللّٰه وإياكم من أهلها.»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن محمد بن يزيد أبو هاشم الرفاعي
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير: انه سمع جابرا قيل لابي عاصم: عن النبي صلى الله عليه وسلم؟. قال: نعم "اهل الجنة لا يبولون، ولا يمتخطون، ولا يتغوطون، ويكون ذلك منهم جشاء، ياكلون، ويشربون، ويلهمون التسبيح والحمد، كما يلهمون النفس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا قِيلَ لِأَبِي عَاصِمٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟. قَالَ: نَعَمْ "أَهْلُ الْجَنَّةِ لَا يَبُولُونَ، وَلَا يَمْتَخِطُونَ، وَلَا يَتَغَوَّطُونَ، وَيَكُونُ ذَلِكَ مِنْهُمْ جُشَاءً، يَأْكُلُونَ، وَيَشْرَبُونَ، وَيُلْهَمُونَ التَّسْبِيحَ وَالْحَمْدَ، كَمَا يُلْهَمُونَ النَّفَسَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ابوعاصم سے پوچھا گیا: کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا؟ کہا: ہاں، جنت کے لوگ نہ پیشاب کریں گے نہ ناک سنکیں گے نہ پاخانہ کریں گے، اس کے بجائے انہیں بس ڈکار آئے گی، کھائیں گے، پئیں گے اور تسبیح وتحمید کا انہیں الہام ہوگا جیسے سانس کا الہام ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2869]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2835]، [أبوداؤد 4741]، [أبويعلی 1906]، [ابن حبان 7435]، [العظمة 583]
وضاحت: (تشریح حدیث 2861) بہشت وہ عالمِ پاک ہے جہاں کے کھانے کا فضلہ اس عالم کی طرح نہیں بلکہ وہاں کا فضلہ ڈکار اور خوشبودار پسینہ ہو کر نکل جایا کرے گا، اور جیسے اس عالم کی زندگی ہوا کھینچنے اور سانس لینے پر موقوف ہے اسی طرح اس عالمِ پاک میں سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا دم لینے کے قائم مقام ہو کر روح کا راحت افزا ہوگا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اہلِ سنت اور اکثر مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ جنّت کے لوگ کھائیں گے اور پئیں گے اور تمام مزے اٹھائیں گے، اور جنّت میں یہ نعمتیں ہمیشہ رہیں گی، کبھی ختم نہ ہوں گی، اور جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے صرف مشابہ ہیں، حقیقت اس کے سوا ہے۔ (وحیدی)۔
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يقول الله عز وجل: اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات ولا اذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر، واقرءوا إن شئتم: فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون سورة السجدة آية 17".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عز و جل فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ تیار کیا ہے جو آنکھ نے دیکھا نہیں، کان نے سنا نہیں، اور کسی آدمی کے دل پر گذرا نہیں (یعنی تصور میں بھی نہ آیا ہو)، اگر چاہو تو یہ پڑھ لو: «﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾»(سجده 17/32) ترجمہ: کوئی نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی ہے، جو کچھ وہ عمل کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2870]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3244]، [مسلم 2824]، [أبويعلی 6276]، [ابن حبان 369]، [أبونعيم فى صفة الجنة 109-115] و [البيهقي فى البعث و النشور 389]
وضاحت: (تشریح حدیث 2862) قرآن پاک اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنّت میں اتنی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا، اس سے جنّت اور اس کی نعمتوں کا وجود بھی ثابت ہوا، نیز یہ کہ یہ محض خیال اور وہم نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث متفق عليه
(حديث قدسي) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن ادنى اهل الجنة منزلا من يتمنى على الله، فيقال له: لك ذاك ومثله معه. إلا انه يلقى سوى كذا وكذا، فيقال له: ذاك لك ومثله معه". قال ابو سعيد الخدري: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فيقال له: ذاك وعشرة امثاله".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا مَنْ يَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُ: لَكَ ذَاكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ. إِلَّا أَنَّهُ يُلَقَّى سِوَى كَذَا وَكَذَا، فَيُقَالُ لَهُ: ذَاكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ". قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَيُقَالُ لَهُ: ذَاكَ وَعَشْرَةُ أَمْثَالِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادنیٰ درجہ کا جنتی وہ ہوگا جو الله تعالیٰ سے تمنا کرے گا اور اس سے کہا جائے گا: تمہارے لئے اتنا ہے جتنی تم نے آرزو کی اور مزید اسی کے مثل، اور اس کو کہا جائے گا (ایک روایت ہے تلقین کی جائے گی) کہ ایسا اور ایسا اور مانگو، اور جواب میں اس سے کہا جائے گا: یہ جو طلب کیا وہ اور اسی کے مثل مزید اور تمہارے لئے ہے۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے کہا جائے گا: یہ اور اس جیسا دس گنا اور تمہارے لئے ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2871]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن اس حدیث کی اصل صحیح مسلم میں ہے۔ دیکھئے: [مسلم 182]، [أحمد 450/2]، [ابن أبى شيبه 15846]، [شرح السنة 4370]، [أبويعلی 6360]، [ابن حبان 4642]، [الحميدي 1212]، [وفي حديث طويل فى البخاري 806]
وضاحت: (تشریح حدیث 2863) یہ ادنیٰ درجہ کے جنتی کا حال ہے کہ اس سے کہا جائے گا: کسی کی بھی تمنا کرو، وہ تمنا کرے گا تو اس کے مثل بلکہ دس گنا اور زیادہ عطا فرمایا جائے گا، یہ الله تعالیٰ کی رحمت، اپنے بندوں سے محبت اور عطاء و بخشش سے کچھ بعید نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن اهل الجنة ليتراءون اهل الغرف في الجنة كما ترون الكوكب الدري في السماء". قال ابو حازم: فحدثت بهذا الحديث النعمان بن ابي عياش، فحدثني , عن ابي سعيد الخدري: انه قال:"الكوكب الدري في السماء الشرقي والغربي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ فِي الْجَنَّةِ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ". قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ النُّعْمَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ، فَحَدَّثَنِي , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّهُ قَالَ:"الْكَوْكَبُ الدُّرِّيُّ فِي السَّمَاءِ الشَّرْقِيُّ وَالْغَرْبِيُّ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”جنت کے لوگ ایک بالا خانے والے دوسرے بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم کوکب دری (چمکتے ہوئے بڑے تارہ) کو آسمان پر دیکھتے ہو (یعنی ایک دوسرے سے اتنے بلند اور دور ہوں گے درجات کے تفاوت کے سبب)“، ابوحازم نے کہا: میں نے یہ حدیث نعمان بن ابی عیاش سے بیان کی، انہوں نے کہا: مجھ سے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور انہوں نے کہا: جیسے تم کوکب دری کو آسمان میں پورب یا پچھم کے کنارے پر دیکھتے ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2872، 2873]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6556]، [مسلم 2831]، [أبويعلی 1130]، [ابن حبان 7393]
وضاحت: (تشریح حدیث 2864) بخاری شریف میں ہے: جنّت والے (اپنے اوپر کے درجوں کو) بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان میں ستاروں کو دیکھتے ہو، وفی روایہ: جیسے تم مشرقی اور مغربی کناروں میں ڈوبتے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ یعنی یہاں «لَيَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ» ہے اور بخاری میں «لَيَتَرَاءَوْنَ الْغُرَفَ» اور یہاں «الْكَوْكَبَ الدُّرِّيِّ» ہے اور بخاری میں «الْكَوْكَبَ الْغَارِبَ»، بہرحال مطلب یہ ہے کہ ستارہ بہت دور افق میں چمکتا نظر آتا ہے، جنتیوں کے مکانات و بالا خانے دور سے دور نظر آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان بالا خانے والوں میں ہمیں بھی شامل فرما دے، آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن اهل الجنة ليتراءون اهل الغرف في الجنة كما ترون الكوكب الدري في السماء". قال ابو حازم: فحدثت بهذا الحديث النعمان بن ابي عياش، فحدثني , عن ابي سعيد الخدري: انه قال:"الكوكب الدري في السماء الشرقي والغربي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ فِي الْجَنَّةِ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ". قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ النُّعْمَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ، فَحَدَّثَنِي , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّهُ قَالَ:"الْكَوْكَبُ الدُّرِّيُّ فِي السَّمَاءِ الشَّرْقِيُّ وَالْغَرْبِيُّ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی بھی جنت میں جائے گا اس کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا گودا (ان کے حسن کی وجہ سے) ستر لباسوں کے اندر سے بھی دکھائی دے گا اور جنت میں کوئی بنا بیوی کے نہ ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2874]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3245]، [مسلم 2834]، [ابن ماجه 4333]، [أبويعلی 6084]، [ابن حبان 7420]
وضاحت: (تشریح حدیث 2865) جنّت کی نعمتوں میں سے ایک اور نعمتِ حور عین جن کا حسن و جمال اور کیفیات قرآن پاک میں بھی مذکور ہیں، سورۃ الرحمٰن اور سورۃ الواقعہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، یہاں اس حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے اور یہ کہ ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی، یہ دنیاوی بیویوں کے علاوہ ہیں، جو نیک بیویاں ہوں گی وہ بھی جنّت میں اپنے شوہروں کے ساتھ ہوں گی، اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوگی۔
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے مروی ہے، ان کے والد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہوگا اس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہوگی جس کو دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2875]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3243]، [مسلم 2838]، [أبويعلی 7332]، [ابن حبان 7395]
وضاحت: (تشریح حدیث 2866) ان دوسروں میں بیویاں اور دوسرے لوگ سب داخل ہیں، قرآن پاک میں ہے: « ﴿حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾[الرحمٰن: 72] » اس سے پہلے ہے: « ﴿فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ .....﴾[الرحمٰن: 56] » جنت میں شرمیلی، نیچی نگاہوں والی حوریں ہیں، حور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول میں کالی آنکھوں (پتلیوں) والی، اور مقصورات سے مراد ان کی نگاه و جان صرف اپنے شوہروں پر رکی ہوں گی، اور اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظر نہ ڈالیں گی، اور قاصرات کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنے شوہروں کے سوا کسی کی خواہش مند نہ ہوں گی، فی الخیام یعنی خیموں میں محفوظ ہوں گی، ان آیات و حدیث سے جنّت اور حور اور جنّت کے خیموں کا وجود ثابت ہوا۔ اس حدیث میں ہے ہر کونے پر ایک بیوی ہوگی اور اوپر دو بیویوں کا ذکر ہے، تو دو بیویاں بطورِ حصر نہیں ہیں، وہاں بندہ جتنی چاہے گا ازواج ملیں گی، الله تعالیٰ کی عطاء بخشش کی کوئی حدود حساب نہیں، خیمے بھی اتنے لمبے چوڑے ساٹھ میل کی لمبائی یا چوڑائی، سبحان الله العظيم، اس میں شک و شبہ نہیں ہونا چاہے، آیات اور احادیث سے جو ثابت ہوا من و عن تسلیم اور ایمان و یقین لازم ہے، اس کی ماہیت و کیفیت میں سر کھپانا ہمارا کام نہیں۔ والله اعلم۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو جب جنت میں اولاد کی خواہش ہوگی تو اس کا حمل، وضع حمل اور بڑا ہونا (یعنی عمر) سب ایک ساعت میں اس کی خواہش کے مطابق ہو جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2876]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2563]، [ابن ماجه 4338]، [أبويعلی 1051]، [ابن حبان 7404]، [موارد الظمآن 2636]، [البيهقي فى البعث و النشور 587]
وضاحت: (تشریح حدیث 2867) بعض علماء نے کہا: جنّت میں اولاد کی خواہش ہی نہ ہوگی لہٰذا اولاد بھی نہ ہوگی، لیکن اس حدیث میں ہے اگر خواہش کی تو اولاد بھی ہوگی لیکن یہ سب مراحل پلک جھپکتے ہو جائیں گے، قرآن پاک میں بھی ہے: « ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ﴾[فصلت: 31] » یعنی جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنّت میں موجود ہے۔ اسی طرح فرمایا: « ﴿وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ .....﴾[الزخرف: 71] » یعنی مؤمن جس چیز کی خواہش کریں اور آنکھوں کو لذت ملے وہ سب کچھ جنّت میں موجود ہوگا۔ ان آیات و احادیث سے جماع اور اس کی لذتیں سب ثابت ہوئیں جن کی مؤمن بندہ وہاں خواہش کرے گا، اور جماع کی طاقت و قوت سو گنا عطا ہوگی۔ «وذلك فضل اللّٰه.»
سلیمان بن بریدہ نے میرا خیال ہے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جنت کے لوگوں کی ایک سو بیس صف ہوں گی ان میں اسی صف میری امت کی اور چالیس صف دیگر تمام (امت کے) لوگوں کی ہوں گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2877]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2546]، [ابن ماجه 4289]، [ابن حبان 7459]، [موارد الظمآن 2638، وله شاهد عند أبى يعلی 5358]
وضاحت: (تشریح حدیث 2868) اس حدیث سے معلوم ہوا امّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعداد جنّت میں بہت زیادہ ہوگی بلکہ دو تہائی مسلمان اور ایک تہائی دیگر امّت کے لوگ ہوں گے، دنیا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی تمام نبیوں کی امّت سے زیادہ اور آخرت میں بھی سب سے زیادہ ہوں گے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، قال: اخبرنا الجريري، عن حكيم بن معاوية، عن ابيه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إن في الجنة بحر اللبن وبحر العسل وبحر الخمر، ثم تشقق منه الانهار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَحْرَ اللَّبَنِ وَبَحْرَ الْعَسَلِ وَبَحْرَ الْخَمْرِ، ثُمَّ تَشَقَّقُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ".
حکیم بن معاویہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک سمندر دودھ کا، ایک سمندر شہد کا، اور ایک سمندر شراب (خمر) کا ہے، پھر ان سے نہریں پھوٹتی ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2878]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2571]، [ابن حبان 7409]، [موارد الظمآن 2623]، [أبونعيم فى صفة الجنة 307، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2869) ترمذی شریف میں پانی کے سمندر کا بھی ذکر ہے جو صحیح ہے، کیوں کہ قرآن پاک میں بھی چار قسم کی نہروں کا بیان ہے: « ﴿فِيْهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِيْنَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى .....﴾[محمد: 15] » یعنی اس جنّت میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے والا نہیں، دودھ کی نہریں جن کا مزہ نہیں بدلتا، اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کو بڑی لذت ہے، اور شہد کی نہریں ہیں جو بہت صاف ہیں .....۔ بعض احادیث میں ان نہروں کے نام بھی مذکور ہیں جیسا کہ پیچھے گذر چکا ہے، اور ہر جنتی کے بالا خانوں سے یہ نہریں گذرتی ہوں گی۔ الله تعالیٰ ہمیں یہ نعمتیں نصیب فرمائے، آمین۔