Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
108. باب في خِيَامِ الْجَنَّةِ:
جنت کے خیموں کا بیان
حدیث نمبر: 2867
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْخَيْمَةُ دُرَّةٌ مُجَوَّفَةٌ، طُولُهَا فِي السَّمَاءِ سِتُّونَ مِيلًا، فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ لِلْمُؤْمِنِ لَا يَرَاهُمْ الْآخَرُونَ".
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے مروی ہے، ان کے والد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہوگا اس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہوگی جس کو دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2875]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3243]، [مسلم 2838]، [أبويعلی 7332]، [ابن حبان 7395]

وضاحت: (تشریح حدیث 2866)
ان دوسروں میں بیویاں اور دوسرے لوگ سب داخل ہیں، قرآن پاک میں ہے: «‏‏‏‏﴿حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾ [الرحمٰن: 72] » اس سے پہلے ہے: «﴿فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ .....﴾ [الرحمٰن: 56] » جنت میں شرمیلی، نیچی نگاہوں والی حوریں ہیں، حور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول میں کالی آنکھوں (پتلیوں) والی، اور مقصورات سے مراد ان کی نگاه و جان صرف اپنے شوہروں پر رکی ہوں گی، اور اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظر نہ ڈالیں گی، اور قاصرات کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنے شوہروں کے سوا کسی کی خواہش مند نہ ہوں گی، فی الخیام یعنی خیموں میں محفوظ ہوں گی، ان آیات و حدیث سے جنّت اور حور اور جنّت کے خیموں کا وجود ثابت ہوا۔
اس حدیث میں ہے ہر کونے پر ایک بیوی ہوگی اور اوپر دو بیویوں کا ذکر ہے، تو دو بیویاں بطورِ حصر نہیں ہیں، وہاں بندہ جتنی چاہے گا ازواج ملیں گی، الله تعالیٰ کی عطاء بخشش کی کوئی حدود حساب نہیں، خیمے بھی اتنے لمبے چوڑے ساٹھ میل کی لمبائی یا چوڑائی، سبحان الله العظيم، اس میں شک و شبہ نہیں ہونا چاہے، آیات اور احادیث سے جو ثابت ہوا من و عن تسلیم اور ایمان و یقین لازم ہے، اس کی ماہیت و کیفیت میں سر کھپانا ہمارا کام نہیں۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح